خادم رضوی کے پیروکاروں کی متشدد سوچ
کچھ عرصے بعد رنجیت سنگھ کے مجسمے کو اسی جگہ پر دوبارہ ایستادہ کر دیا گیا۔ لیکن دسمبر 2020 میں ایک بار پھر اس کے ساتھ وہی سلوک کیا گیا۔ اس مرتبہ بھی مجرم کو گرفتار کر لیا گیا اور پولیس کو اپنے بیان میں اس نے بتایا کہ رنجیت سنگھ نے مسلمانوں پر بہت مظالم ڈھائے تھے۔ اس کے اس اقدام کی وجہ اپنی وفات سے چند ہی روز قبل تحریکِ لبیک پاکستان کے اس وقت کے سربراہ خادم حسین رضوی کی ایک تقریر تھی جس میں انہوں نے رنجیت سنگھ کا مجسمہ گرا دینے کی ترغیب دی تھی۔ 17 اگست 2021 کو بھی مجسمہ گرانے والا شخص لبیک یا رسول اللہ کے نعرے ہی لگا رہا تھا، جو کہ تحریکِ لبیک پاکستان کا بھی اپنایا ہوا نعرہ ہے۔
سوچنے کی بات ہے کہ نہ جانے اس شخص نے رنجیت سنگھ یا اس خطے کی تاریخ کو کبھی پڑھا بھی ہے یا نہیں۔ کیا وہ محض اس لئے مجسمہ گرا رہا تھا کہ یہ مجسمہ ایک غیر مسلم کا تھا؟ یا اس لئے کہ اسلام میں بتوں کو گرانے کا حکم ہے؟ یا پھر محض اس لئے کہ اس کی جماعت کے سربراہ خادم حسین رضوی نے اپنی وفات سے قبل اپنی ایک تقریر میں اس مجسمے کو گرانے کا حکم دیا تھا اور اس نے اس حکم کو من و عن قبول کر لیا؟
خادم رضوی نے اپنی ایک تقریر میں کہا تھا کہ ''پاکستان سکھوں کو راہداریاں دینے کے لئے نہیں بنا، سکھوں کی 'گندگی' کو مدینہ پاک سے تشبیہ دینے کے لئے نہیں بنا۔ یہ صرف رسول اللہ کے دین کو تخت پر بٹھانے کے لئے بنا ہے۔ یہ اقلیتوں کو خوش کرنے کے لئے دین کا مذاق اڑانے کے لئے نہیں بنا۔ جس کو بہت ہی سکھوں سے پیار ہے وہ امرتسر چلا جائے"۔ خادم رضوی نے کہا تھا کہ"دین ہمیشہ اپنی طاقت سے کھڑا ہے، اور قیامت تک اپنی طاقت سے ہی کھڑا ہوگا''۔
ایک اور تقریر میں خادم رضوی نے رنجیت سنگھ کا مجسمہ بنا کر اس پر 'شیرِ پنجاب' لکھنے کے فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ یہ مسلمانوں کی بیٹیاں اٹھا کر لے جاتا رہا، بادشاہی مسجد میں گھوڑے باندھے۔ خادم رضوی نے کہا کہ "شیرِ پنجاب رنجیت سنگھ ہے یا داتا علی ہجویری؟"
یہ داتا علی ہجویریؒ سے رنجیت سنگھ کا تقابل کرنے کا خیال خادم رضوی کو کہاں سے آیا؟ یہ کیوں ممکن نہیں کہ پنجاب میں گیارھویں صدی عیسوی میں کسی ایک عظیم ہستی کا پیغام مقبول ہوا ہو اور انیسویں صدی میں ایک اور جنگجو راجہ نے پورے پنجاب کو اکٹھا کر کے ایک اکائی میں تبدیل کر دیا ہو جو اس سے پہلے تاریخ کے کسی بھی دور میں ممکن نہ ہوا تھا؟ کیا یہ دونوں کام اپنے اپنے وقت میں اہم نہیں تھے؟ خادم رضوی کو یا تو علم نہیں تھا یا عوام کو یہ بتانے سے ان کا نفرت انگیز پیغام کمزور پڑ جاتا کہ لاہور ہی کے ایک اور عظیم صوفی بزرگ حضرت میاں میر نے امرتسر کے گولڈن ٹیمپل کا سنگِ بنیاد رکھا تھا۔ یہ سنگِ بنیاد بھی انہوں نے اس لئے رکھا کہ وہ شہنشاہ جہانگیر کی جانب سے سکھوں کے عظیم گرو ارجن دیو کے قتل کے داغ کو اپنے اس عمل سے دھونا چاہتے تھے۔ شاید داتا علی ہجویریؒ کے دور میں بھی سکھ ہوتے تو حضور داتا گنج بخشؒ بھی ایسا ہی کرتے۔
اگست 2019 میں رنجیت سنگھ کا مجسمہ توڑنے والے افراد خود کو سومنات کا مندر توڑنے والے شاہ محمود غزنوی سے تشبیہ کیوں دے رہے تھے؟ 1026 عیسوی میں افغانستان کے ایک دور دراز شہر سے ایک شخص نے ہندوستان پر لشکر کشی کی۔ اس زمانے میں مندروں میں بڑی مقدار میں سونا ہوا کرتا تھا، یہ اس سونے کو لوٹنے کے لئے یہاں آتا تھا۔ گجرات تک جا کر اس نے سومنات کا مندر توڑا اور واپس چلا گیا۔ بعد ازاں دعویٰ ضرور کیا کہ یہ قریب اس سے چار سو سال پہلے طائف سے چوری ہونے والا منات کا بت تھا لیکن وہ شاید یہ بھی نہ جانتا تھا کہ منات کو خدا کی 'بیٹی' مانا جاتا تھا جب کہ سومنات کا مندر ایک شیو مندر تھا۔ اس نے وہاں موجود لنگم بھی نہ دیکھا، یا دیکھا تو سمجھ ہی نہ پایا کہ یہ کسی دیوی کا مندر ہونا ممکن نہ تھا۔
سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ آج کے نوجوان خود کو شاہ محمود غزنوی بنانا کیوں چاہتے ہیں؟ یہ الفارابی یا جابر بن حیان یا زکریا الرازی بننے کے لئے اتنے جذباتی کیوں نہیں، جتنے شاہ محمود غزنوی بننے کے لئے ہیں؟
تاریخ کو مسخ کرنے کی روایت
یہ شاید ہماری نصابی کتب کا قصور ہے کہ جن میں محمد بن قاسم سے پہلے ہند کے کسی حاکم کا ذکر تک موجود نہیں۔ شاہ محمود غزنوی پر بھی کوئی تحقیقی کام ہماری درسی کتب میں آپ کو نظر نہیں آئے گا، البتہ فلموں اور ناولوں میں پے در پے سومنات کے مندر کو تاراج کرنے کے حوالے ضرور ملیں گے۔ یہ اپنی تاریخ کو مسخ کرنا نہیں کہلائے گا تو اسے اور کیا کہا جا سکتا ہے؟
رنجیت سنگھ کا مجسمہ گرانا، سر گنگا رام اسپتال کا نام تبدیل کرنے کی کوششیں کرنا، بھگت سنگھ کی لازوال داستان کو سرے سے تسلیم ہی نہ کرنا، یہاں کے انگریز حکمرانوں کے ناموں سے منسوب مقامات کے نام تبدیل کرنا، محمد بن قاسم سے پہلے کی تمام تاریخ کو نصابی کتب سے غائب کر دینا، محمد بن قاسم اور شاہ محمود غزنوی کے درمیان تین سو سال کے عرصے کو نصاب سے حذف کر کے اسے تاریخ سے بھی حذف تصور کرنا کیا آنے والی نسلوں کو اپنی تاریخ سے بے بہرہ رکھنے یا کم از کم متنفر کرنے کے مترادف نہیں؟
رنجیت سنگھ اور ارطغرل
متعدد تاریخ دان اس بات سے اتفاق کریں گے کہ واقعتاً پنجاب میں رنجیت سنگھ کے دور میں کچھ مواقع پر کچھ جگہوں پر نئی نئی قابض ہوئی فوجوں نے مقامی مفتوح آبادی پر مظالم بھی ڈھائے۔ لیکن رنجیت سنگھ کے یہ اقدامات شاہ محمود غزنوی کے سومنات کے مندر پر حملے سے کس طرح مختلف تھے؟ برصغیر میں جہاں ہزاروں سال مسلمان اور ہندو اکٹھے رہے ہیں، اس بات سے کیا انکار کیا جا سکتا ہے کہ بہت سے مسلمان حملہ آوروں نے ہندوؤں کے مقدس مقامات کی بے حرمتی کی، ان کے مندروں کو لوٹا، ان کی عورتوں کو اپنے حرم کا حصہ بنایا، عورتوں کو گھروں سے اٹھایا، ان کی عصمتیں لوٹیں، اور بے شمار مقامی افراد کو اپنی تلواروں کا رزق بنایا؟ آج کیا اس بات سے انکار کیا جا سکتا ہے کہ ہندوستان کو ایک جغرافیائی اکائی میں تبدیل کرنے میں انگریز کا، اس سے قبل اورنگزیب عالمگیر اور اکبرِ اعظم کا اور ان سے قبل بدھ مت کے پیروکار اشوکا کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے؟ یقیناً ان ادوار میں جنگیں بھی ہوئیں، دشمن کو سرنگوں کر کے زیرِ نگین رکھنے کے لئے ان پر مظالم بھی ممکن ہے کیے گئے ہوں۔ لیکن آج اگر ہم بھارتی حکومت سے چاہتے ہیں کہ مغلوں سے متعلق غلط پراپیگنڈا نہ کیا جائے یا انہیں ولن بنا کر پیش نہ کیا جائے تو کیا اپنے ملک میں ہم دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ہم نے یہاں کی تاریخ کو قطعاً مسخ یا تبدیل کرنے کی کوشش نہیں کی؟ اگر رنجیت سنگھ کا سب کیا دھرا اتنا ہی غلط تھا تو پھر یہی سب ارطغرل میں دیکھتے ہوئے ہمیں اپنی منافقت کا احساس کیوں نہیں ہوتا؟
لیکن کیا رنجیت سنگھ نے واقعی مسلمانوں پر مظالم ڈھائے تھے؟
مہاراجہ رنجیت سنگھ نے پنجاب پر قریب 40 سال حکومت کی۔ پہلے دو سال بطور شاہ زمان خان کے گورنر کے اور پھر 38 سال پنجاب کا مہاراجہ بن کر۔ اس تمام عرصے میں اس کے سب سے اہم وزیر فقیر عزیز الدین تھے جن کے نام سے آج اندرون لاہور میں فقیر خانہ عجائب گھر منسوب ہے۔ عزیز الدین فقیر رنجیت سنگھ کے وزیرِ خارجہ تھے۔ فقیر خاندان نے ہی رنجیت سنگھ کو لاہور کا اقتدار سنبھالنے کی دعوت دی تھی۔ اور انہوں نے رنجیت سنگھ کو کسی مسلمان گورنر یا حکمران کو ہٹا کر لاہور پر قبضے کی دعوت نہیں دی تھی۔ رنجیت سنگھ سے پہلے لاہور پر بھنگی سکھوں کا قبضہ تھا۔ فقیر عزیز الدین پر رنجیت سنگھ کے اعتماد کا عالم یہ تھا کہ اس کی سلطنت کے ایسٹ انڈیا کمپنی کے ساتھ تمام معاہدے یہی کیا کرتے تھے۔
رنجیت سنگھ کی سب سے چہیتی بیوی موراں سرکار ایک مسلمان تھیں۔ انہی کی خواہش پر رنجیت سنگھ نے لاہور میں شاہ عالمی میں پاپڑ منڈی بازار میں مائی موراں کی حویلی کے ساتھ مسجدِ طوائفاں بنوائی تھی۔ یہ مسجد آج بھی وہیں موجود ہے۔ 1998 میں اس کا نام تبدیل کر کے مائی موراں مسجد رکھ دیا گیا تھا۔
1833 میں سردار رنجیت سنگھ نے ایک مسلمان لڑکی گلبہار بیگم سے شادی کی۔ ابتدا میں مہاراجہ پر بہت دباؤ ڈالا گیا کہ گل بیگم کو سکھ مذہب قبول کرنا ہوگا لیکن انہوں نے اس دباؤ کو برداشت کیا۔ گل بیگم مسلمان ہی رہیں۔ ان کی قبر لاہور کے میانی صاحب قبرستان میں مائی موراں کی قبر کے بالکل ساتھ ہے۔ یہ دونوں قبریں حضرت طاہر بندگی کی قبر کے ساتھ ہیں۔
رنجیت سنگھ کے پاس قرآنِ کریم کے کئی نسخے موجود تھے۔ ان میں سے ایک نسخہ رنجیت سنگھ نے مہارانی جند کور کو تحفتاً دیا جو انہوں نے وفات سے پہلے داتا صاحب کے دربار کو تحفے میں دے دیا۔ فقیر عزیز الدین اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ انہوں نے مہاراجہ رنجیت سنگھ کو ایک قرآن کے نسخے کے بارے میں بتایا اور کہا کہ ان کے پاس اسے خریدنے کے لئے رقم نہیں۔ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے یہ نسخہ خود خرید لیا۔ سنہری مسجد کے حوالے سے بھی مذہبی انتہا پسند آپ کو یہ تو بتائیں گے کہ اس پر رنجیت سنگھ نے قبضہ کیا تھا، یہ نہیں بتائیں گے کہ یہ واپس مسلمانوں کو بھی رنجیت سنگھ ہی نے کی تھی۔ 1826 میں فقیر عزیزالدین ہی کی سفارش پر رنجیت سنگھ نے لاہور کے شاہی قلعے میں ایک دربار میں یہ اعلان کیا کہ سکھوں کو مسئلہ اذان سے ہے لیکن مہاراجہ تمام مذاہب سے یکساں سلوک کرنا چاہتا ہے۔ اس لئے اب سے علاقے کے سکھوں کا یہ فرض ہوگا کہ وہ فجر کے وقت مسلمانوں کو نیند سے جگائیں۔ چند ہی روز بعد سکھوں نے مطالبہ کیا کہ یہ ان کے لئے انتہائی کٹھن ہے۔ فیصلہ ہوا کہ مسجد کے نیچے واقع دکانوں کا کرایہ سکھ سرکار کے خزانے میں جائے گا۔ اور مسجد مسلمانوں کو واپس کر دی جائے گی۔ دونوں مذاہب کے ماننے والے خوش ہو گئے۔ اور مسلمان خاص مواقع پر سکھوں کو مسجد کا ایک مخصوص حصہ استعمال کرنے کی اجازت بھی دے دیتے۔
غاصب انگریز نے خود کو مسلمانوں سے بہتر حکمران ثابت کرنے کے لئے جہاں ہندوؤں میں مسلمانوں کے لئے نفرت پیدا کی وہیں پنجاب میں مسلمانوں کے دلوں میں سکھوں کی نفرت پیدا کرنے کے لئے جھوٹے قصے کہانیاں بھی بے شمار گھڑوائیں۔ آج خادم رضوی جیسے ملا انگریز کی سازشوں کا ذکر کرتے نہیں تھکتے اور اپنی بیوقوفی میں اسی سازش کے مہرے بھی ہیں۔
سنہری مسجد تو محض ایک مسجد ہے۔ رنجیت سنگھ نے پنجاب بھر میں درجنوں مساجد بنوائیں جن میں سے کئی آج بھی موجود ہیں اور یہاں پانچ وقت کی نماز پڑھی جا رہی ہے۔ مہاراجہ نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ خدا نے مجھے ایک ہی آنکھ دی ہے تاکہ میں سب مذاہب کو ایک ہی آنکھ سے دیکھوں۔ وہ اکبرِ اعظم کی طرح ایک سیکولر حکمران تھا۔ اور ہمارے مذہبی انتہا پسند طبقات جو گنے چنے مظالم کو مہاراجہ رنجیت سنگھ کی legacy بنا کر پیش کرنا چاہتے ہیں، کیا انہوں نے اپنے ملک میں سکھوں کی حالت پر غور کیا ہے؟
پاکستان میں سکھ قوم کی حالتِ زار
دسمبر 2020 میں جب مہاراجہ رنجیت سنگھ کا مجسمہ دوسری مرتبہ گرایا گیا تو بوبی سنگھ بنسل نے اس پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے ڈان اخبار کو بتایا کہ اس کے نزدیک یہ مجسمے توڑنے کی وجہ شاید 1947 میں بٹوارے کے وقت ہوئی خوں ریزی ہے جو آج بھی اس قدر نفرتیں لوگ اپنے دلوں میں لیے بیٹھے ہیں۔
اگست 2017 میں پاکستان میں 19 سال میں پہلی مرتبہ ہوئی مردم شماری کے اعداد و شمار دیکھے جائیں تو ان میں بتایا ہی نہیں گیا کہ ان میں سے سکھ کتنے ہیں۔ لیکن انسانی حقوق کے کارکنان ان کی تعداد اس وقت انتہائی قلیل بتاتے ہیں۔ نادرا کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں اس وقت قریب 6500 کے قریب سکھ موجود ہیں لیکن Sikh Resource and Study Centre کے مطابق 2010 میں ان کی آبادی قریب 50 ہزار تھی۔ سرکاری سطح پر واضح کوئی تعداد دی نہیں جا سکتی، اس لئے تخمینوں پر ہی بھروسہ کیا جا سکتا ہے۔ 2017 میں ڈان کی ایک رپورٹ میں یہ تعداد 20 ہزار بتائی گئی تھی۔
عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ پاکستان میں سکھ برادری باقی اقلیتوں کے مقابلے میں قدرے محفوظ ہے۔ لیکن گذشتہ چند برسوں سے اس حوالے سے بھی افسوسناک حقائق سامنے آئے ہیں۔ 2018 میں پشاور میں سماجی کارکن چرن جیت سنگھ کو قتل کیا گیا تو یہ چار سال میں کسی نمایاں سکھ شخصیت کا دسواں قتل تھا۔ اس سے قبل خیبر پختونخوا اسمبلی کے رکن سورن سنگھ کو بھی 2016 میں قتل کر دیا گیا تھا۔
چرن جیت سنگھ کے قتل پر پشاور میں سکھ کمیونٹی کے نمائندے گرپال سنگھ کا کہنا تھا کہ جس طرح سے چرن جیت اور سورن سنگھ کو قتل کیا گیا ہے، یہ ہم سمجھتے ہیں کہ سکھ برادری کی نسل کشی ہے۔ نیا دور سے بات کرتے ہوئے اس موقع پر بھی متعدد سکھوں نے کہا تھا کہ ہم پاکستان سے بھارت یا خیبر پختونخوا سے ملک کے دوسرے حصوں کی طرف ہجرت کرنے کے بارے میں غور کر رہے ہیں۔
جنوری 2020 میں گرودوارا ننکانہ صاحب پر ایک بڑے مسلمان جتھے نے حملہ کر دیا۔ اس جتھے کو اکٹھا کر کے گرودوارے پر حملے کے لئے اکسانے والے شخص کو گرفتار کر لیا گیا اور اس نے اپنے کیے کی معافی بھی مانگ لی تھی لیکن چند گھنٹوں کے اندر ایک بڑی تعداد کا گرودوارے پر حملے کے لئے تیار ہو جانا اپنے آپ میں لمحۂ فکریہ ہے۔ اور کیا یہ محض اتفاق ہے کہ یہ شخص بھی تحریکِ لبیک کے پیغام سے ہی متاثر تھا اور ننکانے کا نام تبدیل کر کے 'غلامانِ مصطفیٰ' رکھنے کا اعلان بھی کرتا دیکھا جا سکتا ہے؟
ہمیں ریاست سے انصاف چاہیے: سکھ رہنما
2013 سے مسلم لیگ نواز کے ٹکٹ پر پنجاب اسمبلی کے رکن چلے آ رہے رمیش سنگھ اروڑا کے مطابق پاکستان میں عدم برداشت بڑھ رہی ہے اور ایسے واقعات اور یہ سوچ دراصل اسی خراب ہوتی صورتحال کی عکاسی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ ماہ بھونگ میں ہندو مندر پر ہوئے حملے اور اب لاہور میں رنجیت سنگھ کے مجسمے کو گرائے جانے کی خبروں نے دنیا بھر میں پاکستان کے بارے میں کوئی اچھا تاثر نہیں دیا۔
تحریکِ لبیک پاکستان کے ایسے بہت سے واقعات میں ملوث ہونے کے حوالے سے ان سے سوال کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ جماعت یا گروہ کوئی بھی ہو، ہمیں اور پاکستان کے تمام شہریوں کو تحفظ دینا ریاستِ پاکستان کا کام ہے۔ "ہم یہ نہیں کہیں گے کہ ہمیں فلاں گروہ سے کوئی خطرہ ہے یا فلاں جماعت سے، ہم تو صرف ریاست سے تحفظ چاہتے ہیں"۔ ان کا کہنا تھا کہ ریاستِ پاکستان کو نہ صرف اقلیتوں کے حقوق فراہم کرنے چاہئیں جو کہ آئینِ پاکستان میں درج ہیں بلکہ ہمیں اپنے نصاب میں بھی تبدیلی کی ضرورت ہے۔
موجود حکومت کی پالیسیوں پر تنقید کرتے ہوئے رمیش سنگھ اروڑا کا کہنا تھا کہ اس حکومت کے چند ایسے اقدامات ہیں جن کی وجہ سے بین الاقوامی سطح پر تاثر گیا ہے کہ پاکستان میں اقلیتیں محفوظ نہیں۔ اسے سوچنا ہوگا کہ پاکستان امریکہ کی مذہبی اقلیتوں کے حوالے سے countries of particular concern کی فہرست میں کیوں شامل ہے۔
دسمبر 2020 میں امریکہ کے کمیشن برائے عالمی مذہبی آزادی نے پاکستان سمیت 9 ملکوں کی فہرست جاری کی تھی جن میں مذہبی اقلیتوں کو مظالم کا سامنا تھا۔ اس فہرست میں پاکستان کے ساتھ چین، ایران، سعودی عرب، تاجکستان، ترکمانستان، نائیجیریا، شمالی کوریا، میانمار اور اریٹریا شامل تھے۔ 2021 میں اس فہرست میں بھارت بھی شامل ہو گیا۔
رنجیت سنگھ کی پنجاب کی تاریخ میں کیا اہمیت ہے؟
برصغیر پر صدیوں سے وسط ایشیائی فوجیں حملہ آور ہوتی رہی ہیں اور یہاں کے عوام پر اپنا تسلط قائم کرتی رہی ہیں۔ پھر چاہے وہ دورِ قدیم میں آریائی نسل کے خانہ بدوشوں کی صدیوں پر محیط سینکڑوں یلغاریں ہوں یا پھر شاہ محمود غزنوی اور اس کے بعد آنے والی قریب درجن بھر اقوام خلجی، لودھی، تغلق، مغل وغیرہ ہوں، یہ سب وسطی ایشیا سے ہندوستان پر حملہ آور ہوتے اور اس دھرتی کو اپنا گھر بناتے رہے۔ لیکن اورنگزیب عالمگیر کے بعد ایسا کرنا بدستور مشکل ہوتا چلا گیا۔ اورنگزیب کی وفات کے بعد، بندا سنگھ بہادر نے مغل سلطنت سے آزادی کا اعلان کر دیا اور مسلسل چھ سال تک اس کے ساتھ برسرِ پیکار رہا۔ جب تک زندہ رہا، اس نے مغلوں کی ناک میں دم کیے رکھا۔ 1716 میں اس کو مغلوں کے ہاتھوں شکست ہوئی اور اسے دلی لے جا کر ساتھیوں سمیت قتل کر دیا گیا۔ لیکن اس سے مغل سلطنت کی طاقت میں کوئی اضافہ نہ ہوا۔ یہ کمزور ہی ہوتی چلی گئی۔ دوسری طرف ہندوستان کے مختلف علاقوں میں دیگر طاقتور گروہوں نے سر اٹھانا شروع کر دیا۔ اورنگزیب اور اس کے بعد آنے والے دیگر تمام مغل بادشاہوں کے ادوار میں پنجاب میں مختلف سکھ گروہ بتدریج طاقتور ہوتے چلے گئے۔ نادر شاہ اور پھر احمد شاہ ابدالی کے دلی پر حملے دراصل مغلوں کے غروب ہوتے سورج ہی کی نشانیاں تھے۔
1757 کی جنگِ پلاسی کے بعد اگلے دس سال تک احمد شاہ ابدالی نے متعدد مواقع پر پنجاب پر حملے کیے اور اس کے سامنے ہر بار سکھ خالصہ دَل ہی کھڑا رہا۔ احمد شاہ درانی کے بعد اس کے بیٹے تیمور زمان نے بھی پنجاب پر حملے جاری رکھے لیکن ان حملوں میں دل خالصہ کی شدید مزاحمت نے افغان سلطنت کو اس حد تک کمزور کر دیا کہ یہ آنے والے برسوں میں خود ہی خانہ جنگی کا شکار ہو گئی۔ تیمور شاہ درانی کے بیٹوں کے درمیان خانہ جنگی اور اس کے وارث زمان شاہ کی طاقتور بارکزئی قبیلے کے ساتھ دشمنی نے بالآخر اس کو 1801 میں اقتدار سے علیحدہ ہونے پر مجبور کر دیا۔ اس کی جگہ محمود شاہ درانی نے لی۔ لیکن اس سے صرف دو سال قبل زمان شاہ 19 سالہ رنجیت سنگھ کو 1799 میں پنجاب میں اپنا گورنر مقرر کر چکا تھا۔ لیکن یہ گورنری رنجیت سنگھ کو یوں ہی نہیں مل گئی تھی بلکہ اس نے زمان شاہ پر ثابت کر دیا تھا کہ اس کو شکست دینا زمان شاہ کی فوجوں کے لئے ممکن ہی نہیں تھا۔
1797 میں شاہ زمان نے پنجاب کو افغان سلطنت کا حصہ بنانے کی غرض سے حملہ کیا تو 17 سالہ رنجیت سنگھ سے اس کا پہلی بار پالا پڑا جس نے اپنی مسل میں زمان شاہ کی 12 ہزار کی فوج کو اپنی جنگی حکمتِ عملی اور میدانِ جنگ کی بہتر سمجھ بوجھ سے شکست دی۔ 1798 میں ایک بار پھر زمان شاہ نے لاہور پر قبضے کے لئے ایک فوج بھیجی۔ اس بار رنجیت سنگھ نے کوئی جنگ نہ کی اور افغان فوج کو لاہور میں داخل ہونے دیا۔ لیکن اس کے بعد اس نے لاہور کا محاصرہ کر لیا اور خوراک اور دیگر ضروری اشیا کو لاہور میں داخلے سے روک دیا۔ افغان فوج کو خود کو محاصرے میں پا کر یہاں سے واپسی کی راہ لیتے ہی بنی۔ رنجیت سنگھ نے اس فوج کو واپس جانے سے نہیں روکا۔ 1799 میں اس نے لاہور کے بھنگی سکھوں کو شکست دے کر لاہور پر قبضہ کر لیا۔ شاہ زمان نے اس کو پنجاب میں اپنا گورنر قرار دے کر خود کو تسلی دے لی۔ لیکن 1801 میں زمان شاہ کے کابل میں اقتدار کے خاتمے کے موقع پر رنجیت سنگھ نے خود کو پنجاب کا مہا راجہ قرار دے دیا۔ اگلے ہی برس اس نے سکھوں کے مقدس شہر امرتسر پر بھی قبضہ کر لیا۔
اسی رنجیت سنگھ نے بالآخر تمام چھوٹے چھوٹے سکھ قبائل کو اکٹھا کیا۔ جہاں جنگ لڑنا پڑی، ان کو شکست دی۔ قصور کے افغان حکمران گذشتہ کئی دہائیوں سے افغانوں کے پنجاب اور ہندوستان پر حملوں میں افغانوں کا ساتھ دیتے آئے تھے۔ 1807 میں اس نے قصور کو بھی شدید لڑائی کے بعد فتح کیا۔
تاریخی اعتبار سے افغانوں کے لئے پنجاب میں داخلے کے لئے دو ہی راستے رہے تھے۔ جب تک قندھار افغان حکومتوں کا مرکز رہا، ہندوستان میں داخلے کے لئے ملتان کا راستہ ہی استعمال کیا جاتا رہا۔ بعد ازاں کابل افغانستان کا سیاسی مرکز بنا اور دلی ہندوستان کا۔ ملتان کی اہمیت بتدریج کم ہوتی چلی گئی کیونکہ دلی کا رستہ لاہور سے ہو کر جاتا تھا۔ مگر ملتان پنجاب کا دوسرا اہم ترین شہر ضرور تھا۔ 1818 میں رنجیت سنگھ نے اسے بھی فتح کر لیا اور پنجاب کا پہلا بلا شرکتِ غیرے حکمران بنا۔ یہ رنجیت سنگھ ہی تھا جس نے افغان قبضے سے پنجاب کو آزاد کروایا اور نہ جانے کتنی صدیوں میں پنجاب کا پہلا خود مختار حکمران بنا۔
اس سے پہلے 1813 میں رنجیت سنگھ ہی کی فوجوں نے اٹک بالآخر افغانوں سے واپس حاصل کیا تھا جب دیوان محکم چند کی کمان میں سکھ فوج نے دوست محمد خان کی قیادت میں شاہ محمود کی افغان فوجوں کو شکست دی۔ یاد رہے کہ بعد ازاں یہی دوست محمد خان افغانستان کا بادشاہ بھی بنا۔ اگلے ہی برس رنجیت سنگھ کی فوجوں نے کشمیر پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔ 1818 میں یہ درانیوں کے خلاف ایک اور حملے میں انہیں دھکیلتا ہوا پشاور تک جا پہنچا جہاں کے گورنر یار محمد خان نے اسے سالانہ خراج پیش کرنے کا عہد کیا اور اس کی اطاعت قبول کر لی۔ 1822 میں پشاور پر ایک بار پھر افغانوں نے قبضہ کر لیا لیکن رنجیت سنگھ کی فوجوں نے اگلے برس ان کو فیصلہ کن شکست دے کر وادی پشاور کو اپنی ریاست کا مستقل حصہ بنا لیا۔ 1836 میں پشاور پر ایک مرتبہ پھر افغانوں نے قابض ہونے کی کوشش کی لیکن رنجیت سنگھ کے سپہ سالار ہری سنگھ نلوا کی فوجوں نے شدید مزاحمت کی، اس وقت تک کہ لاہور سے مزید فوجیں پشاور آن پہنچیں اور انہوں نے افغانوں کو ایک بار پھر کابل میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔
پشاور پاکستان کا حصہ رنجیت سنگھ کی وجہ سے ہے
انگریزوں کی افغانوں کے ساتھ متعدد جنگیں اس کے بعد ہوئیں، ابتدائی فتوحات کے بعد ہمیشہ ہی اس کو ہزیمت کے ساتھ افغانستان سے نکلنا پڑتا۔ لیکن رنجیت سنگھ کی 1839 میں موت کے بعد بھی افغان پشاور کو کبھی افغان سلطنت کا حصہ نہیں بنا سکے۔ 1893 میں افغان امیر عبدالرحمان خان نے تاج برطانیہ کے ساتھ ڈیورنڈ لائن کا معاہدہ طے کر لیا۔ خود امیر عبدالرحمان اور اس کے بعد آنے والے یکے بعد دیگرے افغان حکمرانوں نے ڈیورنڈ لائن پر انگریزوں کے ساتھ دوبارہ سودے بازی کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ 1947 میں انگریزوں نے ہندوستان اور پاکستان کو آزادی دی تو اسی معاہدے کا وارث پاکستان بنا جسے افغان حکومت نے متعدد مرتبہ چیلنج کرنے کی کوشش کی لیکن ہر بار ناکام رہی۔ آج اگر پشاور پاکستان کا حصہ ہے، تو اس کی وجہ رنجیت سنگھ کا افغانوں کو شکست دے کر پشاور پر قبضہ کرنا ہے۔ بلکہ یوں کہا جائے کہ دریائے سندھ پر اٹک پل کے پار خیبر پاس تک پورا صوبہ خیبر پختونخوا آج پاکستان کا حصہ رنجیت سنگھ ہی کی مرہونِ منت ہے تو غلط نہ ہوگا۔
پاکستان کی فوج اور رنجیت سنگھ
رنجیت سنگھ نے اپنی فوج کو جدید خطوط پر استوار کیا۔ اس مقصد کے لئے اس نے اطالوی، فرانسیسی، روسی، ہسپانوی اور انگریز فوجیوں کی خدمات حاصل کیں۔ اس پر اکثر الزام لگایا جاتا ہے کہ اس نے پنجاب میں مسلمانوں پر مظالم ڈھائے۔ ان الزامات میں تھوڑی بہت حقیقت بھی ہو سکتی ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سے قبل قریب ڈیڑھ سے دو صدیوں میں مغل حکمران اور بعد ازاں افغان حملہ آور مسلسل پنجابی سکھوں کے ساتھ برسرِ پیکار رہے تھے۔ یہ مسلمان ہی تھے۔ رنجیت سنگھ یا اس کی فوجوں سے یہ امید کرنا کہ ان کے ذہن میں ان کے دشمنوں کا کوئی مذہب سرے سے تھا ہی نہیں یا وہ پنجاب میں رہنے والے مسلمانوں کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار نہ ہوں گے، ناانصافی ہے۔ ساتھ ہی یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کی جا سکتی کہ اس کی فوج میں ہندوؤں اور سکھوں کے ساتھ ساتھ مسلمان بھی شامل تھے۔ کشمیر میں اس کی فوج میں ہندوؤں کی تعداد زیادہ تھی۔ دوآبہ کے علاقے میں سکھ جاٹ بہت بڑی تعداد میں تھے جب کہ جہلم دریا کے علاقے میں اس کی فوج میں مسلمانوں کی نمائندگی قدرے زیادہ تھی۔ اس نے فوج کی ٹریننگ، فوج میں بھرتی کے اصولوں کو بہتر کیا۔ فوج کو براہِ راست خزانے سے تنخواہیں دی جاتیں۔ مغلوں کے دور میں انہیں اپنے اپنے علاقوں سے خود ٹیکس اکٹھا کرنے کی اجازت دی جاتی تھی۔ رنجیت سنگھ نے فوج کی کمان میں مرکزیت کی بنیاد ڈالی۔
یہ رنجیت سنگھ کی جدید فوج ہی تھی جس کی بنیاد پر انگریز دور میں پشتونوں کے علاوہ پنجابیوں کو martial race کہا گیا۔ اسی خطے سے بڑی تعداد میں انگریزوں کو فوجی میسر آتے رہے اور پاکستان بننے کے بعد یہی مقامی فوج پاکستان کی سرحدوں کی حفاظت کی ضامن ہے۔
'رنجیت سنگھ دھرتی کا بیٹا ہے'
رنجیت سنگھ کی پیدائش کے وقت پنجاب کئی خود مختار مِسلوں میں بٹا ہوا تھا۔ موت کے وقت پنجاب کے اس عظیم سپوت نے ایک متحد پنجاب چھوڑا۔ رمیش کا کہنا ہے کہ رنجیت سنگھ نے پنجاب کی خدمت کی ہے اور پنجاب اس بات کو مانتا ہے۔ "2015 میں پنجاب اسمبلی نے رنجیت سنگھ کی تعظیم میں لائی گئی قرارداد متفقہ طور پر پاس کی۔ اس کے 40 سالہ دورِ اقتدار میں اس نے بڑی بڑی عظیم مثالیں قائم کیں۔ یہ تاثر غلط ہے کہ وہ مساجد کی بے حرمتی کرتا تھا۔ تاریخ کو مسخ کیا گیا ہے۔ رنجیت سنگھ کے وزیروں، مشیروں میں بھی مسلمان شامل تھے"۔
رمیش سنگھ اروڑا کا کہنا ہے کہ مہاراجہ رنجیت سنگھ 1780 میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئے اور یہیں لاہور ہی میں 1839 میں ان کا انتقال ہوا۔ اسی شہر میں واقع رنجیت سنگھ کی سمادھی میں اس کی خاک موجود ہے۔ "وہ اس دھرتی کا بیٹا ہے۔ اس سے تو انکار ممکن نہیں"۔