بنگلہ دیش جیسی عوامی بغاوت پاکستان میں کیوں نہیں ہو سکتی؟

مبصرین کی رائے میں عرب سپرنگ سے پہلے جو حالات تھے وہ اس وقت پاکستان میں بھی موجود ہیں۔ ان میں ریاست اور شہریوں کا رابطہ منقطع ہونا، معاشی بدحالی، سوشل میڈیا، اور جبر کا شکار سیاسی ماحول جیسے حالات شامل ہیں۔ تاہم یہاں بنگلہ دیش کے طرز کی عوامی بغاوت نہیں ہو گی۔

08:52 PM, 28 Aug, 2024

رضا رومی
Read more!

بنگلہ دیش میں ہنگامہ خیز واقعات اور شیخ حسینہ کی ڈرامائی برطرفی کے بعد پاکستانی تجزیہ کار بحث کر رہے ہیں کہ کیا ان کے ملک میں بھی حکومت کی اس طرح کی تبدیلی کا امکان ہے۔ ظاہری طور پر عوامی تحریک کے لیے حالات اس سے زیادہ سازگار نہیں ہو سکتے - ایک مقبول سیاست دان جیل میں ہیں، ان کے حمایتی طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ سے ناراض ہیں اور معاشی حالات خراب ہیں، خصوصاً مہنگائی بہت زیادہ ہے۔ ان سب کے باوجود تجزیہ کاروں کا اتفاق ہے کہ کم از کم اس وقت بنگلہ دیش کے طرز کی عوامی بغاوت پاکستان میں نہیں آئے گی۔

پاکستان کا سیاسی منظرنامہ دو سال سے زیادہ عرصے سے سابق وزیر اعظم عمران خان، ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف اور ملٹری انٹیلی جنس کمپلیکس، جو روایتی طور پر پاکستان میں ہر سیاسی تبدیلی کے پیچھے ہوتی ہے، کے مابین جاری کشمکش سے عبارت ہے۔

عمران خان کو اپریل 2022 میں تحریک عدم اعتماد کے ذریعے حکومت سے بے دخل کر دیا گیا تھا، یہ بظاہر ایک آئینی عمل تھا جس کی پشت پر اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مؤثر حمایت موجود تھی۔ عمران خان اور ان کی پارٹی نے حکومت کی اس تبدیلی کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور اسے امریکہ کی حمایت سے پاک فوج کی جانب سے تیار کی گئی غیر ملکی سازش قرار دیا۔

جیسا کہ پاکستان میں ہوتا ہے، یہاں یہ عوامی تاثر پایا جاتا ہے کہ حکومتوں کی تشکیل اور ان کے خاتمے میں اللہ، امریکہ اور فوج کا ہاتھ ہوتا ہے۔ اس مرتبہ بڑا فرق یہ سامنے آیا کہ عمران خان نے ملک بھر میں اپنے حامیوں کو فوج کے خلاف کھڑا کر دیا اور خاص طور پر صوبہ پنجاب میں فوج کے حامی متوسط طبقے کو فوج کے خلاف کر دیا۔ بہت سے لوگوں نے اس پیش رفت کو ملکی سیاسی تاریخ میں ایک بڑی تبدیلی کے طور پر دیکھا۔ اپریل 2022 سے مئی 2023 میں اپنی گرفتاری تک عمران خان نے کم از کم 50 جلسے کیے، کم و بیش ہر روز قوم سے 'خطاب' کیا اور خبروں پر چھائے رہے۔ جزوی طور پر، ایسا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر بڑی تعداد میں ان کے حامیوں کی ماجودگی اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں جو انہیں ملک کے لیے بہترین انتخاب سمجھتے ہیں، کی حمایت کی وجہ سے ممکن ہوا۔

عمران خان کی مقبولیت

دلچسپ بات یہ ہے کہ بیرون ملک مقیم بہت سے پاکستانی فوجی سربراہ سے صدر بننے والے پرویز مشرف (1999-2008) کو ملک کی قیادت کرنے کے لیے بہترین انتخاب سمجھتے تھے۔ لیکن پرویز مشرف کے اقتدار اور سیاست سے باہر ہونے کے بعد عمران خان ان لوگوں کے پسندیدہ ترین لیڈر بن گئے اور اس وقت بیرون ملک مقیم پاکستانی عمران خان کے بڑے حامی ہیں۔

غالباً ان کی مقبولیت میں سب سے بڑا اضافہ اس حکومت کی طرف سے لیے گئے مشکل معاشی فیصلوں کی وجہ سے ہوا جس نے عمران خان حکومت کی جگہ لی۔ شہباز شریف کی حکومت نے 2022 میں عالمی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) کی جانب سے بیل آؤٹ پیکج کے لیے مقرر کردہ شرائط کو پورا کرنے کے لیے متعدد اقدامات کیے۔ اس کے نتیجے میں روپے کی قدر میں ڈرامائی گراوٹ آئی، افراط زر 40 فیصد تک پہنچ گیا جو حالیہ تاریخ کی بلند ترین سطح ہے، اور پیداوار میں کمی آئی جس کے باعث بے روزگاری میں اضافہ ہوا۔ متوسط ​​طبقے کو مزید نچوڑا گیا اور وہ لوگ جو ایک بہتر معاشی مستقبل کے خواہشمند تھے، شدید مایوسی اور غصے میں آ گئے۔

جب سڑکوں اور ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر عمران خان کی عوامی حمایت بڑھ رہی تھی، طاقت کے مراکز ان کے خلاف ہو رہے تھے۔ جس جنرل کو انٹر سروسز انٹیلی جنس ایجنسی (آئی ایس آئی) کے سربراہ کی حیثیت سے برطرف کیا گیا تھا وہ عمران خان کی مخالفت اور ان کی تعیناتی رکوانے کے لیے کیے گئے لانگ مارچ کے باوجود نومبر 2022 میں آرمی چیف بن گئے۔ سپریم کورٹ کے جس جج کو عمران خان کی حکومت نے نکالنے کی کوشش کی تھی وہ بھی بچ گئے اور 2023 میں چیف جسٹس بن گئے۔ ( عمران خان دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ فوج کے ایما پر کیا گیا تھا)۔ ملک کے اہم فیصلے اس وقت یہی دو غیر منتخب ادارے کر رہے ہیں۔

لگ بھگ تمام سیاسی جماعتوں پر مشتمل سیاسی برادری، جس میں بلاول بھٹو کی پاکستان پیپلز پارٹی اور نواز شریف کی مسلم لیگ ن شامل ہیں، نے اقتدار تک پہنچنے اور عمران خان کے ساتھ حساب برابر کرنے کے لیے فوجی اسٹیبلشمنٹ کو خوش دلی کے ساتھ اتحادی بنا لیا ہے۔ یہ وہی شریف برادران اور موجودہ صدر آصف علی زرداری ہیں جنہیں عمران خان حکومت نے کرپشن کے الزام لگا کر جیل میں ڈال دیا تھا۔

مئی 2023 میں عمران خان کو جیل بھیج دیا گیا۔ اسی روز ان کے حامیوں نے احتجاج کیا اور ان کا ہدف وہ نہیں تھا جو عام طور پر مظاہرین کا ہوتا ہے۔ وہ راولپنڈی میں جی ایچ کیو، لاہور میں کور کمانڈر ہاؤس (جسے احتجاج کے دوران نذر آتش کر دیا گیا تھا)، متعدد فوجی تنصیبات اور طاقت کی علامتوں کے باہر جمع ہوئے۔ اس کے بعد پارٹی کے کارکنوں کے خلاف وحشیانہ کریک ڈاؤن کیا گیا، عمران خان کو دوبارہ گرفتار کر لیا گیا اور اگست 2023 سے وہ جیل میں ہیں۔

سیاسی پاور گیم

عمران خان کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے باوجود فروری 2024 کے عام انتخابات میں ان کی جماعت نے غیر معمولی کامیابی حاصل کی۔ ووٹرز نے واضح طور پر طاقتور حلقوں اور عمران خان کو اقتدار سے باہر رکھنے کے ان کے فیصلے کو یکسر مسترد کر دیا۔ پی ٹی آئی پارلیمنٹ کی واحد سب سے بڑی جماعت بن کر ابھری، اور یہ ایک ڈرامائی فتح تھی کیونکہ اس کے بہت سے امیدواروں کو رکاوٹوں کا سامنا تھا، انتخابی نتائج میں ہیر پھیر کی بھی خبریں آئیں، اور پارٹی کو انتخابی نشان سے بھی محروم کر دیا گیا تھا (جو کم تعلیم یافتہ ووٹرز کے لیے بہت اہم ہوتا ہے)۔

لیکن جس طرح پاکستان میں پاور گیم چلتی ہے، فوجی اسٹیبلشمنٹ کی آشیرباد (جسے بعض لوگ مداخلت بھی کہتے ہیں) سے مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے مابین ایک حکومتی اتحاد قائم ہوا۔ پچھلے 6 ماہ سے یہ اتحاد اس عوامی تاثر کے سائے تلے حکومت کرنے کی جدوجہد کر رہا ہے کہ اس حکومت کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔

دراصل وہ روایتی طبقات جو پہلے اس قسم کے انتظامات کی حمایت کرتے تھے، اب کھلے عام فوج اور سیاست میں اس کے کردار پر تنقید کر رہے ہیں۔ ان طبقات میں متوسط طبقہ کے پیشہ ور افراد، کاروباری گروپ، ریٹائرڈ سرکاری افسران اور دیگر شامل ہیں۔

ملک کے دور دراز کے علاقوں میں دہشت گردی کے واقعات نے اس انتشار میں مزید اضافہ کیا ہے۔ شمال مغربی علاقے پاکستانی طالبان کی واپسی، سکیورٹی ایجنسیوں پر مسلسل حملوں اور بھتہ خوری کے واقعات سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ ملک کے جنوب میں بلوچ کارکن کئی ہفتوں سے اپنے ہی صوبے میں نظرانداز ہونے اور گمشدہ افراد کے معاملے پر احتجاج کر رہے ہیں۔ پاکستان کے ایک قبائلی ضلع کرم میں فرقہ وارانہ فسادات بھی ہوئے ہیں۔ پاکستان کے زیر انتظام آزاد کشمیر کے علاقے میں بھی کھانے پینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے اور دیگر شکایات پر فسادات ہو چکے ہیں۔

ان مخدوش حالات میں جو چیز غائب ہے وہ سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب جو کہ پاور میٹرکس کا تعین کرتا ہے، میں منظم احتجاج کا نہ ہونا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے عوامی تحریک کی جب بھی کوئی کوشش کی جاتی ہے تو موجودہ حکومت غیر معمولی طور پر چوکس اور مزاحم ہو جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوامی غصہ باہر نہیں آ رہا۔ مزید براں، عمران خان کے جیل میں ہونے سے ان کی جماعت میں اختلافات پیدا ہو گئے ہیں جہاں کئی گروپ اور افراد طاقت کے لیے کوشاں ہیں۔ ایسی رپورٹس بھی آئی ہیں کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں بھی پارٹی میں مزید تقسیم پیدا کرنے کیلئے کوشاں ہیں۔ تاہم، اس سب کا عمران خان کی مقبولیت پر کوئی اثر نہیں پڑا اور جنوبی ایشیائی فارمولے کے عین مطابق جیل میں جانا ان کی مقبولیت میں اضافے کا باعث بن رہا ہے کیونکہ اسیر رہنما کے لیے عوام کے دلوں میں ہمدردیاں پیدا ہو جاتی ہیں۔

خراب معاشی صورت حال

موجودہ حکومت اور فوجی جنتا کے لیے اصل چیلنج معاشی مشکلات ہیں جو تقریباً ہر پاکستانی کو متاثر کر رہی ہیں۔ توانائی کی قیمتوں میں ہونے والے حالیہ اضافے اور ٹیکسوں کی بلند شرح (حتی کہ معمولی تنخواہوں پر بھی) جیسے اقدامات انتہائی غیر مقبول ہوئے ہیں اور جبکہ آئی ایم ایف کی مزید شرائط ابھی سامنے آنی ہیں تو عوامی احتجاج کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ ابھی چند ہی روز قبل، نواز شریف (جن کے بھائی وزیر اعظم اور بیٹی وزیر اعلیٰ پنجاب ہیں) نے غریب اور متوسط طبقے کے بجلی صارفین کے لیے سبسڈی کا اعلان کیا مگر یہ شاید کافی نہیں ہو گا۔

پاکستان کی معاشی شرح نمو نسبتاً کم رہنے کا امکان ہے (2 فیصد سے 3 فیصد کے درمیان) اور حالیہ برسوں میں آمدن میں اضافہ افراط زر کی بلند شرح سے حاصل کیا گیا ہے۔ غربت کی شرح بڑھی ہے جس سے کم از کم 2 کروڑ لوگ پہلے سے مزید غریب ہوئے ہیں۔ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح بدستور بلند ہے جبکہ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کم ہو گئی ہے۔ پاکستان کا زیادہ انحصار مغربی امداد پر تھا مگر اب وہ بھی بند ہو گئی ہے۔ دوسری جانب طبقہ اشرافیہ مراعات کے مزے لوٹ رہا ہے، ٹیکس سے استثنیٰ جیسے فائدے اٹھا رہا ہے اور 2021 میں شائع ہونے والی اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ہر سال 17 ارب ڈالر کی سبسڈیز لے رہا ہے۔

اس سب کے باوجود، پاکستان کو سری لنکا جیسے ڈیفالٹ کا کوئی خطرہ درپیش نہیں کیونکہ آئی ایم ایف نے پاکستان کے ساتھ ایک اور پروگرام کا وعدہ کیا ہے (بورڈ جلد ہی اس کا جائزہ لے گا)۔ بنگلہ دیش جیسے احتجاج کے لیے نچلی سطح پر عوام کا منظم ہونا بے حد ضروری ہے۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں نے وقت گزرنے کے ساتھ مقامی سطح پر رابطہ رکھنا ترک کر دیا ہے اور لگ بھگ سبھی جماعتوں کے کیڈر انتہائی غیر منظم ہیں۔

ملک کی واحد منظم قوتیں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے وہ گروہ ہیں جو مذہبی بنیادوں پر سیاست کرتے ہیں اور اگر ملک میں بڑے پیمانے پر احتجاج شروع ہوئے تو اسلام پسند حلقے سب سے آگے ہوں گے۔ جماعت اسلامی نے حالیہ ہفتوں کے دوران چند مخصوص علاقوں میں اپنے حامیوں کو مہنگائی کے خلاف متحرک کیا ہے۔ بنگلہ دیش کے برعکس پاکستان متنوع نسلی اور علاقائی گروہوں پر مشتمل ایک ہمہ گیر ملک ہے اور ان مختلف گروہوں کو ایک 'قومی' جھنڈے تلے جمع کرنا بہت بڑا چیلنج ہے۔

اس کے باوجود معاشی دباؤ اصل خطرہ ہے، اور عوامی تحریکوں کے شروع ہونے میں اکثر غیر متوقع اور بعض اوقات چھوٹے چھوٹے واقعات ہی کافی ہوتے ہیں، ایسے واقعات جو آگ کو بھڑکانے کا کام دیں۔ مبصرین کی رائے میں عرب سپرنگ سے پہلے جو حالات تھے وہ اس وقت پاکستان میں بھی موجود ہیں۔ ان میں ریاست اور شہریوں کا رابطہ منقطع ہونا، معاشی بدحالی، سوشل میڈیا، اور جبر کا شکار سیاسی ماحول جیسے حالات شامل ہیں۔

موجودہ حکومت اگر عوام کو ریلیف دینا چاہتی ہے تو اسے رعایتیں دینا ہوں گی، فضول خرچیوں کو کم کرنا ہو گا، اور بڑے پیمانے پر چلنے والے طویل مدتی منصوبوں کو معطل کرنا ہو گا۔ ووٹرز اور ان کے انتخاب کو منصفانہ اور شفاف انتخابات کے ذریعے تسلیم کیا جانا چاہیے۔ جس چیز کی فوری ضرورت ہے وہ سیاسی اشرافیہ کی قیادت میں طرز حکمرانی کی ازسرنو تشکیل ہے جس میں فوج کو واضح پیغام دیا جائے کہ وہ بیرکوں میں واپس جائیں۔ اس کے ساتھ ساتھ عمران خان سمیت تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کیا جانا چاہیے۔ یہ بھی قابل افسوس ہے کہ عمران خان دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ بات کرنے سے انکار کرتے رہے ہیں اور بار ہا کہہ چکے ہیں کہ بات چیت وہ صرف فوج کے ساتھ کریں گے۔

تاریخ یہی بتاتی ہے کہ سویلین بالادستی صرف اسی صورت میں حاصل ہو سکتی ہے جب تمام سیاسی جماعتیں اور سول سوسائٹی کے لوگ اکٹھے ہو جائیں اور فوج اور عدلیہ جیسے غیر منتخب اداروں کی طاقت کو کم کیا جائے۔

مزیدخبریں