اس میں سب سے اول وہ نئے پاسپورٹ کے لیے حکومت پاکستان سے درخواست کریں۔ سابق وزیر اعظم کے پاس دوسرا آپشن یہ ہے کہ وہ برطانیہ سے کسی دوسرے ملک منتقل ہو جائیں۔اس ضمن میں ان کیسعودی عرب یا قطر منتقل ہونے کی اطلاعات ہیں۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف کیلئے تیسرا آپشن یہ ہے کہ وہ سیاسی پناہ کے لیے برطانوی حکومت کو درخواست دیں یا پھروطن واپس آ کر مقدمات کا سامنا کریں اور جیل چلے جائیں۔
مسلم لیگ کے سربراہ نواز شریف نے گذشتہ سال برطانیہ سے وزٹ ویزا حاصل کیا تھا جس کی معیاد ختم ہو چکی ہے تاہم کرونا کی بنیاد پر انہوں نے ویزا میں توسیع کے لیے برطانوی حکومت سے رجوع کیا تھا۔
بظاہر ویزا توسیع میں کوئی رکاوٹ نہیں لیکن فروری میں پاسپورٹ کی معیاد ختم ہونے پر ویزا میں توسیع مسئلہ بن سکتی ہے۔ اس مد میں نواز شریف نے پارٹی کے سینئر رہنماؤں کے ساتھ مشاورت کی ہے اور امکان ظاہر کیا جارہا ہے کہ نواز شریف برطانیہ میں سیاسی پناہ کے لیے درخواست دے دیں۔ وطن واپس آکر مقدمات کا ساکنا کرنے کا آپشن خاندان اور سینیر رہنماؤں نے مسترد کر دیا۔ ان کی صاحبزادی مریم نواز موجودہ صحت کے ساتھ انکی واپسی کی مخالف ہیں۔
دوسری جانب حکومت کو یہ اختیار ہے کہ وہ نواز شریف کا پاسپورٹ منسوخ کرے جیسا کہ اسحاق ڈٓر کے ساتھ کیا گیا تھا لیکن اس سے سابق وزیر اعظم کو برطانیہ میں قیام میں مدد ملے گی۔ تاہم وزیر اعظم عمران خان نے بھی اس مد میں وزیر خارجہ سمیت اہم مشیروں سے مشاورت کی کہ ہے کہ اگر نواز شریف نئے پاسپورٹ کے لیے درخواست دیتے ہیں تو حکومت کی حکمت عملی کیا ہونی چاہئیے۔