اتحادیوں کو راضی کرنے، وزارتیں دینے، ناز نخرے اٹھانے کے باوجود 113 حکومتی قانونی مسودوں، 249 نجی بلز میں سے 99 ایکٹ آف پارلیمنٹ ہی بنا سکی، کار سرکار چلانے کے لئے صدارتی آرڈیننسز کا سہارا لینا پڑا، قومی اسمبلی کی لائبریری، سیکرٹریٹ، سرکاری ویب ریکارڈ کا ڈیٹا اکٹھا کرنے کے بعد جو اعداد و شمار سامنے آئے ہیں ان کے مطابق 18 اگست 2018 سے 20 نومبر 2021 تک حکومت کی جانب سے کل 113 بلز قومی اسمبلی میں پیش کیے گئے، جب کہ پرائیویٹ ممبران کی جانب سے 249 بلز ایوان میں پیش ہوئے، لیکن اس عرصے میں 68 آرڈیننسز بھی ایوان کے سامنے رکھے گئے۔ حکومت نے سال 2021 کے دسمبر میں مشترکہ اجلاس کے ذریعے 33 قوانین پاس کرائے۔ پی ٹی آئی حکومت کے تین سال چار ماہ کے دوران 99 ایکٹ آف پارلیمنٹ بنے۔
سال 2013 سے 2018 کے دوران ن لیگ کی حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور اقتدار میں 3 مشترکہ اجلاس بلائے جس میں صرف 7 بل منظور کرائے، جب کہ پی ٹی آئی حکومت اپنے تین سال چار ماہ کے پارلیمانی عرصے میں مشترکہ اجلاسوں کے ذریعے 42 قوانین منظور کروانے میں کامیاب رہی۔
موجودہ قومی اسمبلی نے 18 اگست 2018 سے اپنے پہلے پارلیمانی سال کا آغاز کیا۔ اس سال میں حکومت نے 19 بل پیش کیے جب کہ اسی سال نجی ممبران کی جانب سے 29 بلز پیش کیے گئے۔ دوسرے پارلیمانی سال 13 اگست 2019 سے 12 اگست 2020 تک حکومت نے 52 بل پیش کیے جب کہ نجی ارکان نے 110 بلزپیش کیے۔ تیسرا پارلیمانی سال جو 13 اگست 2020 سے 12 اگست 2021 تک تھا اس میں حکومت کی جانب سے 31 بلز پیش کیے گئے۔ اس سال نجی ممبران حکومت سے آگے رہے اور 74 بلز پیش کیے۔
چوتھا پارلیمانی سال جس کی ابتدا 13 اگست 2021 سے ہوئی، اس میں 20 نومبر 2021 تک 11 بلزپیش کیے گئے۔ سینیٹ میں پی ٹی آئی اور اس کے اتحادیوں کی اکثریت نہ ہونے اوراپوزیشن کی مخالفت کے باعث حکومت کو قانون سازی میں شدید مشکلات کا سامنا رہا ہے، جس کے نتیجے میں حکومت نے مشترکہ اجلاسوں سے قانون سازی کرنے کا راستہ اختیار کیا، موجودہ حکومت نے اپنے تین سال چار ماہ کی مدت میں تین مشترکہ اجلاس طلب کر کے قانون سازی کی، قومی اسمبلی کی لائبریری میں موجود ریکارڈ کے مطابق تحریک انصاف کی حکومت نے دوسرے پارلیمانی سال میں 6 اگست 2020 کو مشترکہ اجلاس طلب کر کے ایک بل پاس کرایا، جب کہ تیسرے پارلیمانی سال میں دو مشترکہ اجلاس طلب کیے گئے، جس میں 16 ستمبر 2020 کو 8 قوانین پاس کرائے گئے جب کہ یکم دسمبر 2021 کے مشترکہ اجلاس میں 33 قوانین پاس کیے گئے۔
اس طرح پی ٹی آئی حکومت کے تین سال چار ماہ کے دوران 68 آرڈیننسز بھی قومی اسمبلی کے سامنے رکھے۔ پہلے سال 7، دوسرے سال 31، تیسرے سال 20 اور رواں سال 10 آرڈیننسز پیش کیے گئے۔ ذرائع کے مطابق تین سال چار ماہ کے دوران کل 99 ایکٹ آف پارلیمنٹ بنے جن میں پہلے سال 2، دوسرے سال 6، تیسرے سال 36 اور رواں سال ریکارڈ 55 بلز شامل ہیں، جنہیں ایکٹ آف پارلیمنٹ کا درجہ دیا گیا۔ اس سلسلے میں فیئر اینڈ فری الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے مطابق نجی ارکان کے تین سال چار ماہ کے دوران 21 بل منظور ہوئے۔ اگر ن لیگ کی گذشتہ حکومت کا موجودہ حکومت سے قانون سازی کے حوالے سے موزانہ کیا جائے تو ن لیگ کی حکومت نے پہلے پارلیمانی سال میں 11 دوسرے میں صرف 8، تیسرے میں 50، چوتھے میں 56 اور پانچویں سال میں 67 بلز پاس کرائے۔ قومی اسمبلی کے ذرائع کے مطابق موجودہ حکومت کو گذشتہ دو سالوں کے دوران ایوان میں کورم پورا کرنا ایک چلینج رہا جس کے نتیجے میں اجلاس کی کارروائی موخر ہوتی رہی۔ یہی سبب تھا کہ حکومت نے قانون سازی کے لئے یا تو مشترکہ اجلاسوں کا سہارا لیا یا آرڈیننسز جاری کر کے کاروبار حکومت کو چلانے کی کوشش کی ہے۔
اس سلسلے میں جب قومی اسمبلی میں پیپلز پارٹی کی متحرک ممبر ڈاکٹر نفیسہ شاہ سے استفسار کیا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے پارلیمنٹ کو قانون سازی کے بجائے اپنے انتقام کا ادارہ بنا دیا ہے، پارلیمان کو ایسی قانون سازی کے لئے استعمال کیا جارہا ہے جو موجودہ حکومت کو اپنے مخالفین سے انتقام لینے کا ذریعہ بنے۔ ان کا کہنا تھا کہ نارمل پراسس میں قانون سازی نہیں ہو رہی، قومی اسمبلی کو آرڈیننسز فیکٹری بنا دیا گیا ہے، انسانی حقوق سمیت مثبت قانون سازی کے بلز پر بات کرنے کا موقع ہی نہیں دیا جاتا۔
نفیسہ شاہ کا کہنا تھا کہ ہم نے قومی اسمبلی میں پوچھا کہ ابصار عالم پر حملے اور مطیع اللہ جان کے اغوا میں ملوث ملزمان کا کیا ہوا تو اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ ان کے مطابق پارلیمان کو نیب چیئرمین کو توسیع دینے، کبلھوشن کو محفوظ راستہ دینے، ہائر ایجوکیشن کمیشن کے خلاف منفی قانون سازی کے لئے استعمال کیا جا رہا ہے۔
پارلیمانی سیکرٹری برائے انسانی حقوق لال چندمالھی نے بتایا کہ تحریک انصاف نے جب حکومت بنائی تو اسے معمولی اکثریت ملی اور عددی اعتبار سے اسے ایک مضبوط اپوزیشن ملی۔ مختلف مواقع پر قانون سازی کے دوران حکومت کو شکست بھی ہوئی، لیکن عددی کمزوری کے باوجود ایک سو سے زائد قانونی مسودے پاس کرائے گئے۔ ان کا کہنا تھا کہ سینیٹ میں حکومت اور اس کے اتحادیوں کو اکثریت حاصل نہیں ہے، نتیجے میں حکومت نے مشترکہ اجلاس بلا کر ریکارڈ قانون سازی کی۔