جی ایس پی پلس معاہدہ؛ معاشی اشاریے بہتر مگر انسانی حقوق کا معیار پست ہوا

رپورٹ میں پاکستان میں کئی منصوبوں کا جائزہ لیا گیا۔ انسانی حقوق کے حوالے سے ایک ایکشن پلان 2016 میں بنایا گیا تھا جس میں انسانی حقوق پر ایک سو کے قریب اقدامات کرنے تھے۔ گذشتہ 7 سال میں پاکستان کی کارکردگی معمولی رہی اسی لیے انسانی حقوق کی پامالیوں کے واقعات میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔

04:08 PM, 28 Dec, 2023

پیٹر جیکب

کچھ تاخیر سے مگر نومبر2023 میں یورپین کمیشن اور یورپین پارلیمنٹ کے سٹاف کی مشترکہ رپورٹ سامنے آ گئی جس میں پاکستان میں 2020 اور 2022 کے دوران انسانی حقوق کے معیارات پر عمل درآمد یا کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔ رپورٹ کی اہمیت بہت زیادہ ہے کیونکہ 2014 سے لاگو جی ایس پی پلس کی تجارتی رعایت ممکن بنانے والے معاہدہ کا ایک اہم مقصد انسانی حقوق کی عمل داری قائم کرنا ہے جس میں 27 یورپی ممالک کو پاکستان سے بغیر کسی ٹیکس کے برآمدات کی اجارت 10 سال سے لاگو ہے۔

مقامی برآمد کنندگان کو اس رعایت کا کتنا فائدہ ہوا، یہ اس امر سے عیاں ہے کہ پاکستان اس معاہدے کے تحت یورپ کے ممالک کو برآمد کرنے والے تمام ممالک کو پیچھے چھوڑ گیا۔ گذشتہ تین سالوں میں بڑھتے بڑھتے پاکستان کی سالانہ برآمدات 14.8 بلین ڈالر تک آ گئیں۔ (ای یو پریس ریلیز 21 نومبر 2023 اسلام آباد)

متذکرہ بالا رپورٹ کے مطابق یورپی یونین کو جانے والی یہ برآمدات پاکستان کی کل برآمدات کا تقریباً 30 فیصد ہیں۔ اسی لئے پاکستان کی حالیہ معاشی مشکلات میں جی ایس پی پلس ایک انتہائی اچھی خبرہے اور اس سے بھی بڑھ کر، نومبر2023 میں یورپی پارلیمنٹ نے پاکستان سمیت 7 ممالک کے ساتھ تجارتی رعایت میں آئندہ چار سال کے لیے یعنی 2027 تک توسیع کی منظوری دے دی۔ پاکستان کا گذشتہ جی ایس پی پلس معاہدہ 2024 میں ختم ہو رہا تھا جس کی توسیع باقاعدہ درخواست اور انسانی حقوق کے معیارات پر عمل درآمد کی رپورٹ سے مشروط تھی۔ مگر یورپی یونین کی نئے معاہدے کی تیاری پرعدم اتفاق کے باعث پرانے معاہدوں میں توسیع کر دی گئی۔

یہ توسیع معاشی بحرانوں سے نکلنے کے لحاظ سے تو اچھی ہے لیکن حقوق کے حوالے سے جو کیفیت پائی جاتی ہے وہ کردار جو اور اس صورت حال میں ذمہ داریوں سے پہلو تہی کرتے ہیں خطرہ یہ ہے یہ اچھی خبر ان کی حوصلہ فزائی کا باعث نہ بنے۔

متذکرہ بالا جائزہ رپورٹ بادی النظر میں پاکستان کی کارکردگی کا ہمدردانہ احاطہ کرتی ہے۔ پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے 27 معاہدات پر عمل درآمد کرے جن کا تعلق لیبر قوانین، ماحولیات اور انسانی حقوق سے ہے۔ یورپ نے اپنے نظام انصاف سے اقوام متحدہ کے شہری اور سیاسی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے، (آئی سی سی پی آر) میں دی گئی ترغیب پر سزائے موت کو نظام انصاف سے خارج کر دیا ہے۔ اس لیے پاکستان کو بھی سزائے موت کے خاتمے کو ایک ترجیح بنانے کی شرط عائد کی گئی۔

حقیقت تو یہ ہے کہ پاکستان نا صرف سزائے موت کے خاتمے کے لیے کوئی بامعنی اقدامات کرنے میں ناکام رہا بلکہ جبری گمشدگیوں، گھریلو تشدد، عورتوں اور اقلیتوں کے خلاف پرتشدد واقعات پر قابو پانے میں بھی کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اس لیے اس رپورٹ کے مندرجات باوجود کہ پاکستان کو درپیش چیلینجز کا رپورٹ میں بخوبی احاطہ کرتے ہیں، یہ رپورٹ واضح تنقیدی نقطہ نظر استعمال کرنے سے گریز کرتی ہے۔

درحقیقت انسانی حقوق کی صورت حال کو بہتر بنانا ہمارے اپنے فائدے میں ہے اور بیرونی ترغیب تو ایک معاونت ہے کیونکہ کسی سماج کی ترقی محض معیشت کی بہتری کا نام نہیں۔ آدابِ حکومت اور قانون کی حکمرانی کے بغیر کوئی ریاستی نظام استحکام کی سطح کو نہیں چھو سکتا۔

رپورٹ میں پاکستان میں کئی منصوبوں کا جائزہ لیا گیا۔ انسانی حقوق کے حوالے سے ایک ایکشن پلان 2016 میں بنایا گیا تھا جس میں انسانی حقوق پر ایک سو کے قریب اقدامات کرنے تھے۔ بچوں، عورتوں اور مذہبی اقلیتوں کے ضمن میں قانون سازی نیز ادارہ جاتی اصلاحات بشمول جیل ریفارمز اور نظام انصاف میں اصلاحات دسمبر 2016 تک نافذ کرنا تھیں۔ البتہ گذشتہ 7 سال میں کارکردگی معمولی رہی اسی لیے انسانی حقوق کی پامالیوں کے واقعات میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ بالخصوص قومی کمیشن برائے حقوق اقلیت کی تشکیل نہیں ہوئی۔ حکومت مسیحی عائلی قوانین میں ترمیم کے ضمن میں برسوں سے یہ عذر پیش کرتی رہی کہ مسیحی برادری میں اتفاق رائے نہیں۔ جبکہ اتفاقِ رائے پیدا کرنے کے لئے کوئی بامعنی کوشش بھی نہیں کی گئی۔

ہندو میرج ایکٹ 2014 اور آئند کارج (سکھ) میرج ایکٹ 2018 میں بن گئے لیکن ان کے رولز آف بزنس نہیں بنائے گئے اس لئے ان پر عمل درآمد نہیں ہوا۔ یعنی قانون سازی تو ہوئی مگر مؤثر نہیں۔ 2023 تک رولز آف بزنس کا محظ زیرو ڈرافٹ بن پایا۔

لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ معاشی میدان میں ایک سہولت تو ملی مگر جی ایس پی پلس کے تحت ذمہ داریوں کی انجام دہی میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا گیا۔ پنجاب میں 36 وویمن شیلٹرزبنانا حکومت کی قانونی ذمہ داری تھی، صرف ملتان میں ایک وویمن شیلٹر بنا جو مکمل طور پر فعال نہیں۔

سرکاری مشینری جو معمولی پیش رفت پر بھی دادِ تحسین کی طلب گار رہتی اور ذرا سی تنقید پر آپے سے باہر ہو جاتی ہے اگر جواب دہی کرنے والے مقامی اور بین الا قوامی ادارے ان کی کمزوریوں کو نظر انداز کرتے رہیں گے تو سوال یہ ہے کہ سرکاری مشینری سستی اور بے عملی سے کیسے باز آئے گی۔

درست کہ موجودہ حالات میں جہاں اشیائے ضرورت بشمول گیس اور بجلی کے نرخ آسمان سے باتیں کرتے ہیں اگر جی ایس پی پلس کے تجارتی فائدے میں کمی آئے تو عام شہریوں کی مشکلات بڑھ جائیں گی۔ جن کا فیصلہ سازی میں کوئی کردار نہیں مقتدر قوتوں اور فیصلہ ساز اداروں کا ہے۔ جو طاقت کے توازن کو اپنے حق میں رکھنے کے لئے سیاسی اکھاڑ پچھاڑ میں توانائیاں برباد کرتے ہیں۔ تحریر و تقریر کی آزادیوں کی غیر موجودگی میں مسائل اور ان کے حل پر کھل کر بات ہوتی ہے نہ رائے عامہ بیدار ہوتی ہے۔ اس کی بجائے جذباتی نعرے مذہب اور وطن کی خدمت کے طور پر قومی بحث اور بیانیے میں میسر ساری جگہ گھیر لیتے ہیں۔

ایک سوال یہ بھی ہے کہ تجارتی معاہدات کے ساتھ جوڑا گیا انسانی حقوق پر ترقی کا مقصد کس حد تک ہوا اور کیسے کامیاب ہو سکتا ہے۔ دیکھا جائے تو گذشتہ 15 سالوں میں انسانی حقوق کی صورتِ حال بنگلہ دیش اور بھارت میں بھی خراب ہوئی ہے جو دونوں جی ایس پی پلس اور جی ایس پی سے مستفید ہونے والے ممالک میں شامل رہے۔ یعنی تجارتی معاہدے انسانی حقوق کا ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہے۔

راقم کا خیال ہے اس ضمن میں بہتر نگرانی اور جوابدہی کی ضرورت ہے۔ اکثر اوقات جہاں جہاں سیاسی ناہمواری یا سماجی کشمکش جاری ہوتی ہے ان ممالک کے مقتدر حلقے ہنگامی حالات کو بھی جوابدہی سے بچنے کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس لئے مقامی اور غیر جانب دار مبصرین کو جائزہ کار کے طور پر شامل کیا جائے۔ نیز یہ جائزہ ہر چھ ماہ بعد باقاعدگی کے ساتھ ہونا چاہئیے۔ یورپین یونین کے جائزوں میں سول سوسائٹی کی رپورٹوں سے استفادہ تو کیا جاتا ہے مگر سول سوسائٹی ان جائزوں کا لازمی جزو نہیں۔ پاکستان میں تو این جی او پالیسی 2013 کے تحت سول سوسائٹی کے نیچے سے زمین کھینچ لی گئی اور یکطرفہ قانونی کارروائی پر اکتفا کیا گیا۔ جو تنظیمیں بچ گئیں وہ ایسی تھیں جو زیادہ دم خم رکھتی تھیں اور جنہیں عدالتوں نے بچایا۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ جی ایس پی پلس اور دیگر مواقع کا بھرپور فائدہ اٹھانے کے لئے آداب حکمرانی میں عوام دوست پالیسیوں کو شامل اور قانون کی حکمرانی کو رہنما بنایا جائے۔ محض معاشی اشاریے نہیں بلکہ آئین میں پاکستان میں دیے گئے حقوق اور آزادیوں کا میسر ہونا اس بات کا تعین کریں گے کہ پاکستان کے لوگوں کا معیار زندگی بہتر ہوا یا نہیں۔

مزیدخبریں