مفرور دہشتگرد احسان اللہ احسان پر مقدمہ چلانے میں ناکامی پر ریاستی اداروں سے جواب طلب

10:39 AM, 28 Feb, 2020

نیا دور
پشاور ہائیکورٹ نے کالعدم تحریک طالبان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان پر مقدمہ نہ چلانے کے خلاف توہین کی درخواست پر متعدد ریاستی اداروں کو جواب جمع کروانے کی ہدایت کر دی۔

جسٹس اکرام اللہ خان اور جسٹس اعجاز انور نے درخواست کے فریقین کو نوٹسز جاری کرتے ہوئے 15 روز میں جواب جمع کروانے کی ہدایت کی۔ مذکورہ درخواست 2014 میں آرمی پبلک سکول پر ہونے والے حملے میں شہید ہونے والے طالبعلم کے والد فضل خان نے دائر کی تھی۔

درخواست گزار نے موقف اختیار کیا کہ فریقین نے احسان اللہ احسان کو سابق حکومت کی جانب سے مبینہ معافی کے منصوبے کے خلاف دائر درخواست پر دیے گئے عدالتی حکم کی سنگین خلاف ورزی کی۔

مذکورہ درخواست میں چیف آف آرمی سٹاف، ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی، خیبرپختونخوا کے چیف سیکریٹری اور وزارتِ داخلہ، دفاع، قانون اور پارلیمانی امور کو فریق بنایا گیا ہے۔

درخواست گزار کے وکیل امیر اللہ خان چمکنی نے موقف اختیار کیا کہ 25 اپریل 2018 کو ہائیکورٹ بینچ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کی جانب سے عدالت کو اس بات کی یقین دہانی کروانے پر کہ حکومت کا احسان اللہ احسان کو معافی دینے کا کوئی ارادہ نہیں، فضل خان کی پہلی درخواست خارج کر دی تھی۔ وکیل کا کہنا تھا کہ عدالت نے حکم دیا تھا کہ احسان اللہ احسان کو بغیر مقدمے کی تکمیل کے رہا نہیں کیا جانا چاہیے۔

وکیل کے مطابق درخواست گزار اس وقت حیران رہ گئے کہ جب اداروں کی جانب سے احسان اللہ احسان کو بے خبر، بے گناہ اور ایسا آدمی دکھایا گیا جس کا برین واش کیا گیا تھا جو نادانستہ طور پر صوبے میں دہشت گردی کی کارروائیوں کا ماسٹر مائنڈ تھا۔

وکیل کا کہنا تھا کہ فضل خان نے اس وقت بھی عدالت میں درخواست دائر کی تھی جس پر فریقین نے عدالت کو بتایا تھا کہ دہشت گرد احسان اللہ احسان کو معافی نہیں دی جائے گی اور فوجی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے گا۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ مقدمے چلانے کے بجائے احسان اللہ احسان کو پر تعیش گھر فراہم کیا گیا جہاں سے وہ بعدازاں فرار ہوگئے۔

خیال رہے کہ 6 فروری کو احسان اللہ احسان کی ایک مبینہ آڈیو سوشل میڈیا پر گردش کر رہی تھی جس میں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ سیکیورٹی فورسز کی حراست سے فرار ہو گئے ہیں۔
مزیدخبریں