ن لیگ فیصل آباد میں بڑے کم بیک کیلئے تیار

07:25 PM, 28 Feb, 2022

نیا دور
فیصل آباد ڈویژن کے آٹھ پی ٹی آئی اراکین نے مسلم لیگ ن میں شامل ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس گروپ کی قیادت راجہ ریاض کر رہے ہیں۔

پی ٹی آئی چھوڑنے کو تیار یہ 8 اراکین اسمبلی پہلے بھی اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کر چکے ہیں۔ ان میں سرفہرست راجہ ریاض ہیں جن کا فیصل آباد ڈویژن میں کافی اثرورسوخ ہے۔ وہ پہلے ہی پارٹی قیادت سے شدید ناراض ہیں۔

دیگر اراکین اسمبلی میں نصر اللہ گھمن، عاصم نذیر، نواب شیر وسیر، ریاض فتیانہ، خرم شہزاد، غلام بی بی بھروانہ اور غلام محمد لالی شامل ہیں جنھیں تحریک انصاف سے غداری کے بدلے مسلم لیگ ن کا ٹکٹ ملے گا۔

خیال رہے کہ ریاض فتیانہ کا شمار تحریک انصاف کے اہم اراکین اسمبلی میں ہوتا ہے جو ان دنوں سٹینڈنگ کمیٹی کے چیئرمین بھی ہیں۔ ریاض فتیانہ جلد ہی پی ٹی آئی کو خیر باد کہہ دیں گے جس کے بعد انھیں ن لیگی قیادت کی جانب سے الیکشن 2023 میں پارٹی ٹکٹ جاری کیا جائے گا۔

یہ خبر دی ہے اے آر وائے نیوز کے سینیئر رپورٹر حسن ایوب نے جن کا کہنا ہے کہ یہ آٹھوں افراد فیصل آباد ڈویژن سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کا تعلق چنیوٹ، جھنگ اور ٹوبہ ٹیک سنگھ بھی ہے اور یہ تینوں اضلاع بھی فیصل آباد ڈویژن کا حصہ ہیں۔

دوسری جانب پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر پیپلز پارٹی، ن لیگ اور جمعیت علمائے اسلام کے درمیان ڈیڈ لاک برقرار ہے۔

اے آر وائی نیوز کے مطابق پیپلز پارٹی نے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی تجویز پر اتفاق کیا ہے۔ پی پی پی رہنماؤں کا موقف ہے کہ سپیکر کے خلاف تحریک کے نتائج سے صورتحال بھی واضح ہو جائے گی۔

ذرائع کے کا دعویٰ ہے کہ پیپلز پارٹی پارلیمانی سال مکمل جب کہ مسلم لیگ ن فوری الیکشن چاہتی ہے جو کہ ڈیڈ لاک کی بنیادی وجہ ہے۔ تاہم، بلاول کے حالیہ بیان کہ وہ جلد از جلد انتخابات چاہتے ہیں، برف پگھلنے کا امکان ہے۔

گذشتہ ہفتے پی ٹی آئی کے ناراض رہنما جہانگیر ترین کی شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمان سے خفیہ ملاقاتوں کی خبریں منظر عام پر آئی تھیں۔ اس خبر کی تصدیق خود صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان نے بھی کی تھی۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ جہانگیر ترین اس وقت لندن میں موجود ہیں اور امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان کی ملاقات جلد سابق وزیر اعظم نواز شریف سے بھی ہو سکتی ہے جو تقریباً تین سال سے لندن میں ہی موجود ہیں اور آج کل سیاسی رابطوں میں خاصے متحرک ہیں۔

تحریکِ انصاف کے آٹھ ارکان کا ذکر کیا جائے تو ان میں مختلف لوگ مختلف وجوہات کی بنا پر پارٹی تبدیلی کا سوچ رہے ہیں۔ سرفہرست تو راجہ ریاض ہیں جنہوں نے سب سے پہلے اس حکومت کے خلاف بغاوت کی تھی۔ راجہ ریاض کا تعلق ماضی میں پیپلز پارٹی سے تھا۔ 2008 میں یہ فیصل آباد سے منتخب ہو کر صوبائی اسمبلی میں پہنچے اور مسلم لیگ ن کے ساتھ کچھ عرصے تک کابینہ میں سینیئر وزیر کے عہدے پر بھی رہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس دور میں ان کا شہباز شریف کے ساتھ بہت اچھا تعلق تھا، باوجود اس کے کہ انہوں نے شہباز شریف پر دہری شہریت کا الزام لگایا تھا اور نتیجے میں عدالت میں جا کر انہیں معافی مانگنا پڑی تھی۔ یوں بھی راجہ ریاض نے ن لیگ کے رانا افضل کو محض 6 ہزار ووٹوں سے شکست دی تھی اور اب رانا افضل کی بھی وفات ہو چکی ہے تو ن لیگ کے پاس واقعتاً اس حلقے میں ایک خلا ہے کیونکہ رانا افضل کے صاحبزادے تاحال الیکشن نہیں لڑے ہیں۔

غلام بی بی بھروانہ گذشتہ قریب دو دہائیوں سے مسلسل اپنی سیٹ جیتتی چلی آ رہی ہیں۔ یہ ق لیگ کے ٹکٹ پر بھی جیتی ہیں، پیپلز پارٹی کے بھی، مسلم لیگ ن کے بھی اور پاکستان تحریکِ انصاف کے ٹکٹ پر بھی۔ انہیں کبھی کسی جماعت میں جانے کی ضرورت کم ہی رہتی تھی بلکہ سیاسی جماعتیں خود ان کے پاس چل کر آتی تھیں۔ تاہم، اب صورتحال قدرے مختلف ہو چکی ہے کیونکہ 2018 میں ہوئی حلقہ بندیوں کے بعد ان کا آدھا حلقہ شہری علاقوں پر مبنی ہے اور یہاں سے ووٹ حاصل کیے بغیر محض اپنے دیہی علاقوں کا ووٹ ان کے لئے شاید ناکافی ثابت ہو۔ لہٰذا انہوں نے مسلم لیگ ن میں شمولیت کا فیصلہ کیا ہے جو کہ روایتی طور پر پنجاب کے شہروں میں مقبول رہی ہے۔

نواب شیر وسیر کا معاملہ بھی تھوڑا عجیب ہے۔ 2018 کے انتخابات میں انہوں نے ن لیگ کے طلال چودھری کو شکست دی تھی۔ ان دونوں کے ووٹوں میں کوئی بڑا فرق بھی نہ تھا۔ وسیر صاحب نے 1 لاکھ 9 ہزار ووٹ حاصل کیے تھے جب کہ طلال چودھری نے 97 ہزار ووٹ لیے تھے۔ طلال چودھری نے مشکل وقت میں پارٹی کا جواں مردی سے دفاع کیا ہے۔ اب ان کے حلقے میں کسی اور کو جگہ دے کر طلال کو کہاں ایڈجسٹ کیا جائے گا، اس حوالے سے کچھ واضح نہیں۔

واضح رہے کہ 2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن فیصل آباد ڈویژن سے بری طرح شکست کھا گئی تھی۔ رانا ثنااللہ کے علاوہ اس کے تمام امیدوار پٹ گئے تھے۔ جھنگ اور ملحقہ علاقوں سے ٹکٹ جمع کروانے کی آخری تاریخ پر تمام امیدواروں نے یکایک شیر کا نشان چھوڑ دیا تھا جس کے بعد کوئی امیدوار یہاں سے کھڑا ہی نہ کیا جا سکا تھا۔
مزیدخبریں