نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبر سے آگے' میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بہت سارے معاملات غیر ضروری طور پر عدالتوں میں آتے ہیں، انہیں پارلیمان ہی میں حل ہو جانا چاہئیے۔ ہمارے ادارے چاہے عدلیہ ہو یا جی ایچ کیو، وہ بھی سیاسی رہنماؤں کو اشارہ دیتے ہیں کہ آپ کے مسئلے ہم حل کر دیں گے آپ ہمارے پاس آئیں۔ حالانکہ سیاسی رہنماؤں کو اگر ان کے حال پر چھوڑ دیا جائے تو وہ ادھر ادھر دیکھے بغیر خود ہی اپنے معاملات سلجھانا شروع کر دیں گے۔
صحافی حسن ایوب خان کا کہنا تھا کہ پہلے ججوں کے اختلافات ڈھکے چھپے تھے مگر اب یہ اختلاف کورٹ روم میں سامنے آ گئے ہیں جو افسوس ناک بات ہے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سپریم کورٹ کا آڈٹ نہیں کر سکتی، انہیں یہ اختیار کیوں حاصل نہیں ہے؟ آپ یہ تاثر دینا چاہ رہے ہیں کہ ججز مقدس گائے ہیں اور عوامی نمائندے معمولی حیثیت کے مالک ہیں۔ عمران خان اتنے لوگ عدالت میں لے کر جاتے ہیں عدالت ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کیوں نہیں کرتی؟ بنچ اور مقدمات تبدیل ہونے پر قاضی فائز عیسیٰ نے رجسٹرار سے بہت سخت سوال کیے مگر کسی سوال کا رجسٹرار صاحب تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔
میزبان نادیہ نقی نے کہا کہ جب مریم نواز اور ن لیگ کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ لوگ عدالتوں میں جاتے تھے تو یہی پی ٹی آئی والے اور عمران خان کہتے تھے کہ یہ عدالتوں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش ہے۔ اب عمران خان کی حمایتی جس طرح جوڈیشل کمپلیکس میں گیٹ توڑ کر گھس رہے ہیں، حملے کر رہے ہیں، شیشے توڑ رہے ہیں تو ان کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہئیے۔
میزبان مرتضیٰ سولنگی نے کہا کہ عدالت میں محض بلند آواز میں السلام علیکم کہنے پر مریم نواز کی سرزنش کی گئی تھی کہ کیوں نہ آپ کی ضمانت منسوخ کر دی جائے؟
پروگرام 'خبر سے آگے' ہر پیر سے ہفتے کی رات 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے پیش کیا جاتا ہے۔