سنی اتحاد کونسل کے وکیل بیرسٹرعلی ظفر نے اپنےبیان میں کہان لیگ پی پی اور ایم کیو ایم ہماری مخصوص نشستیں ہتھیانا چاہتی ہیں۔اگر ہماری سیٹیں چھین کر بانٹ دی گئیں تو صدر تمام الیکشن متنازع ہو جائیں گے، ہماری سیٹیں پیپلزپارٹی اور ن لیگ کو بانٹی گئیں تو پھرسپریم کورٹ جائیں گے۔
الیکشن کمیشن میں سنی اتحادکونسل کی مخصوص نشتوں کے کیس کی سماعت کے بعد وکیل بیرسٹر علی ظفر نے میڈیا ٹاک کےدوران کہا کہ سپیکر،ڈپٹی سپیکر،صدر، سینیٹ کا الیکشن بھی متنازعہ ہوجائےگا۔ آئین میں مخصوص نشستوں کیلئے دوبارہ فہرست دینے کی پابندی نہیں۔ قانون کےمطابق سنی اتحاد کونسل نئی فہرست دے سکتی ہے۔
اس موقع پر بیرسٹرگوہرخان نےکاکہنا تھا کہ، 86قومی اسمبلی،107پنجاب،91کےپی میں شامل ہوئے ہیں۔ سیاسی نظام میں مخصوص نشستیں میرٹ کی بنیادپرہوں گی۔سنی اتحاد کونسل کومخصوص نشستیں ملیں گی۔
بیرسٹرگوہر نےمزیدکہا الیکشن کمیشن کوعوامی نمائندوں کا احساس کرناہوگا۔ سمری تمام ممبران کی موجودگی کے بغیرنہیں ہوسکتی۔ الیکشن کمیشن ہماری مخصوص نشستیں جلددے۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
علاوہ ازیں، پاکستان تحریک انصاف نے خواتین اور اقلیّتوں کی مخصوص نشستوں پر ڈاکہ عوامی مینڈیٹ لوٹنے کے شرمناک ریاستی منصوبے کا حصہ قرار دے دیا۔
اپنے ایک بیان میں تحریک انصاف کے ترجمان نے کہا کہ عوامی مینڈیٹ پر کھلا ڈاکہ ڈالنے والے الیکشن کمیشن کی شرمناک سہولت کاری سے مخصوص نشستوں کو غیرآئینی طور پر مینڈیٹ چوروں میں بانٹنے کے ناقابلِ قبول منصوبے بنا رہے ہیں۔ دستور کا آرٹیکل 51 مخصوص نشستوں کی تقسیم کے بنیادی اصولوں کو نہایت صراحت سے بیان کرتا ہے۔ خواتین اور اقلیّتوں کی مخصوص نشستوں کو جنرل سیٹوں کے تناسب سے ہی تقسیم ہونا ہے۔
ترجمان پی ٹی آئی نے کہا کہ سنّی اتحاد کونسل مرکز، پنجاب اور خیبرپختونخوا میں سب سے زیادہ نشستیں رکھنے والی پارلیمانی جماعت ہے۔ سنّی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستوں کی فراہمی میں لیت و لعل اکثریت کو غیر قانونی طور پر جبراً اقلیت میں بدلنے کے غیر آئینی اور غیر جمہوری منصوبے کا حصہ ہے۔جمہوریت کو غیرآئینی و غیر قانونی عزائم کا اسیر بنا کر عوام کے مینڈیٹ کو پامال کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دیں گے۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ جعلی فارم 47 کے ذریعے چھینی گئی قومی اور پنجاب اسمبلی کی نشستیں بھی واپس لیں گے اور مخصوص نشستوں کی غیرآئینی بندربانٹ کی بھی بھرپور مزاحمت کریں گے۔
دوسری جانب الیکشن کمیشن نےفریقین کے دلائل مکمل ہونے پر سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں دینے کے کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا ہے ۔
الیکشن کمیشن میں سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں دینے کے معاملے پر سماعت ہوئی جس دوران ایس آئی سی کے وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ آپ کے ذہن میں کوئی سوال تھا اس لیے آپ نے سماعت کیلئے مقرر کیا۔ ورنہ آپ مختص سیٹ کا اعلان کر سکتے تھے۔ حقیق یہ ہے کہ آپی ٹی آئی کا نشان لیا گیا۔ سپریم کورٹ میں کہا تھا نشان نہیں دیں گے تو مخصوص نشست کا مسئلہ ہو گا۔ سپریم کورٹ میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن مخصوص نشست لے لے گا۔ سپریم کورٹ کو ای سی پی کے وکیل نے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہو گا۔
چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ کیا سپریم کورٹ کے حکم میں یہ لکھا گیاہے۔ وکیل سنی اتحاد کونسل نے جواب دیا کہ جو میں نے پیش گوئی کی تھی وہ ہوا۔ ممبر کمیشن نےکہا کہ ہمیں تو معلوم نہیں تھا کہ آپ کس جماعت میں جا رہے ہیں۔ علی ظفر نے کہا کہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ امیدوار مختلف نشانات پر الیکشن لڑے ۔ اسمبلی میں آزاد امیدوار سیاسی جماعتوں سے زیادہ ہیں۔دو اسمبلیوں میں ہم اکثریت اور ایک اسمبلی میں تقریبا اکثریت میں ہیں۔
علی ظفر کا کہناتھا کہ سنی اتحاد کونسل پر اعتراض کیا گیا کہ وہ پارلیمنٹ میں نہیں ہے۔ کہا جاتا ہے ایس آئی سی میں شامل امیدواروں کو مخصوص نشست نہیں ملنی چاہیے۔ پی ٹی آئی امیدواروں نے تین دن میں ایس آئی سی میں شمولیت اختیار نہیں کی۔ اعتراض ہے آپ آزاد امیدوار ہیں۔ اس کا بھی جواب دینا ہے۔ اعتراض ہے ایس آئی سی نے فہرست نہیں دی تھی۔ اس لیے نشست نہیں مل سکتی۔ مجھے ان تین اعتراضات کا جواب دینا ہے۔ سیاسی جماعت وہ ہے جو الیکشن کمیشن رجسٹر کرے گا۔ سیاسی جماعت رجسٹرڈ ہے تو وہ ہر مقصد کیلئے رجسٹرڈ ہے۔ سیاسی جماعت وہ تنظیم ہے جو الیکشن میں حصہ لے سکتی ہے ۔
چیف الیکشن کمشنر نے دوران سماعت ریمارکس دیتے ہوئے انکشاف کیا کہ سربراہ سنی اتحاد کونسل نے 26 فروری کو الیکشن کمیشن کو خط لکھا۔ جس میں کہا گیا کہ جنرل الیکشن نہیں لڑ رہے اور نہ ہی مخصوص نشستیں چاہئیں۔ چیف الیکشن کمشنر نے سنی اتحاد کونسل کا خط بیرسٹر علی ظفر کے حوالے کیا اور ریمارکس دیے کہ سنی اتحاد کونسل کو مخصوص نشستیں نہیں چاہئیں تو آپ کیوں مجبور کر رہے ہیں ؟بیرسٹر علی ظفر نے سنی اتحاد کونسل کے خط سے لاعلمی کا اظہار کر دیا ۔