شاید آپ کے لئے یہ بات باعث حیرت ہو کہ پی ٹی آٸی حکومت کا موجودہ وزیر خارجہ نواز شریف اور مریم نواز کے بیانیے کہ حق میں بھی گواہی دے سکتا ہے! یہ حیرت کی بات ضرور ہوگی لیکن ہوا ایسا ہی ہے۔
پی ٹی آٸی کا مؤقف یہ تھا کہ ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ غیر حقیقی ہے
ووٹ کو عزت دو کا مطلب دراصل یہی تھا کہ عوام کے ووٹ کا فیصلہ مانا جانا چاہیے اور ’فیصلہ کن قوت‘ عوام کا ووٹ ہی ہونا چاہیے۔ اب ظاہر ہے کہ نواز شریف اور مریم نواز نے یہ بیانیہ اسی لئے اپنایا تھا کیونکہ انہیں یہ لگتا تھا کہ دراصل انہیں کرپشن کی وجہ سے نہیں بلکہ فیصلہ کن قوتوں کے فیصلے کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ وہ صرف اپنی ہی نہیں بلکہ ملک کے تمام وزرائے اعظم کی دہاٸی دیتے تھے۔ جبکہ پی ٹی آٸی کا مؤقف یہ تھا کہ ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ غیر حقیقی ہے، نواز شریف دراصل اپنی کرپشن بچانے کے لئے اداروں کو بدنام کر رہے ہیں۔
شاہ صاحب دراصل اعتراف کر گئے
اب جبکہ شاہ محمود قریشی کا بیچ چوراہے پر ہنڈیا پھوڑتے ہوئے یہ کہنا ہے کہ ان کا تاثر یہ ہے کہ ملک کی فیصلہ کن قوتیں یہ ذہن بنا چکی ہیں کہ نواز شریف اور زرداری کا اب کوٸی سیاسی مستقبل نہیں ہوگا اور مستقبل میں تحریک انصاف ہی ملک کی واحد سیاسی جماعت ہوگی جو ملک پر راج کرے گی تو یہ بیان کرتے ہوئے شاہ صاحب دراصل یہ اعتراف کر گئے کہ نواز شریف اور مریم نواز کا ووٹ کو عزت دو بیانیہ دراصل حق پر ہے۔ اگر بغور دیکھا جائے تو یہ ایک سیدھی سادی دھمکی بھی ہے، مخالفین کے لئے بھی اور ناراض کارکنان کے لئے بھی کہ خبردار اگر کوٸی بھی تحریک انصاف کو چھوڑ کر کہیں اور جائے گا تو اپنا سیاسی مستقبل تاریک کر لے گا۔
’ فیصلہ کن قوتیں تحریک انصاف کی محتاج ہو چکی ہیں‘
اس دھمکی سے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ حکومت کسی نہ کسی سطح پر اندرونی اختلافات اور خوف کا شکار ہے۔ شاہ صاحب اس خوش فہمی میں بھی مبتلا ہیں کہ سیاست کے دو بڑے کھلاڑیوں سے لڑاٸی مول لینے کے بعد فیصلہ کن قوتیں دراصل تحریک انصاف کی محتاج ہو چکی ہیں۔
لیکن ایسا تب ہوتا جب ان کے مخالفین بہت ہی بھولے اور نادان ہوتے۔ لیکن ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ شاہ صاحب اقتدار کے نشے میں یا محض اپنے ناراض لوگوں کو منانے کے لئے اس بات کو بھول رہے ہیں کہ شہباز شریف اور آصف زرداری فیصلہ کن قوتوں سے ڈیل کرنے کے لئے بانہیں پھیلائے کھڑے ہیں اور ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر اب تک پیپلز پارٹی کی تو یہ تاریخ رہی ہے کہ جب بھی فیصلہ کن قوتوں کو سہارے کی ضرورت پڑی تو پیپلز پارٹی نے فیصلہ کن قوتوں سے ڈیل کر کے اقتدار حاصل کرنے میں ایک منٹ بھی دیر نہیں کی۔
نواز لیگ کی ڈبل گیم
مریم نواز اور نواز شریف خود تو ووٹ کو عزت دو کے بیانیے پر قاٸم ہیں لیکن سیاسی حربے کے طور پر شہباز شریف جیسا شریف آدمی بھی میدان میں رکھا ہوا ہے کیونکہ اگر ایسا نہ کیا گیا تو ’فیصلہ کن قوتوں‘ کے لئے موجودہ حکومت کے ناکام ہونے پر پیپلز پارٹی ہی واحد آپشن رہ جائے گا۔ اسی لئے شہباز شریف اب تک ووٹ کو عزت دو بیانیے سے دور دور رہتے ہیں۔
سیاست کے پرانے کھلاڑی اس بات کو اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ اگر فیصلہ کن قوتوں سے محاذ آراٸی جاری رکھی گئی تو عمران خان کا اقتدار طول پکڑے گا کیونکہ فیصلہ کن قوتوں کے پاس کوٸی اور فیصلہ کرنے کے لئے کوٸی آپشن موجود نہیں ہوگا۔