محسن داوڑ اور علی وزیر کو اسلام آباد سے گرفتار کر لیا گیا

12:09 PM, 28 Jan, 2020

نیا دور
گزشتہ روز پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین کو گرفتار کیا گیا تاہم اب ممبر قومی اسمبلی علی وزیر اور محسن داوڑ کو بھی گرفتار کر لیا گیا ہے۔ دونوں رہنماؤں کو کوہسار تھانے میں منتقل کر دیا گیا ہے۔

دونوں رہنما منظور پشتین کی گرفتاری کے خلاف ہونے والے مظاہرے میں شریک تھے۔

https://twitter.com/gabeeno/status/1222126963135012864?s=20

https://twitter.com/AmmarRashidT/status/1222127694516801536?s=20

https://twitter.com/URDUVOA/status/1222108901556084742?s=20

https://twitter.com/sohailnoorkhan/status/1222091247998902272?s=20

یاد رہے کہ گزشتہ روز منظور پشتین کی گرفتاری پر ممبر قومی اسمبلی علی وزیر اور محسن داوڑ نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کی تھی۔ اس موقع پر محسن داوڑ کا کہنا تھا کہ میڈیا کے ذریعے پتا چلا ہے کہ منظور پشتین کے خلاف ایف آئی آر ہوئی ہے، پتہ چلا ہے کہ 18 جنوری میں طلباء کی ایک تقریب میں منظور پشتین کے ایک بیان پر ایف آئی آر کاٹی گئی ہے، ہم تو آئین قانون پر عملدرآمد کی بات کر رہے تھے، منظور پشتین نے بنوں میں پشتونوں کے اتحاد کی بات کی تھی، شاید کچھ عناصر کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ ہم دنیا بھر کے پشتونوں کو احتجاج کی کال دے رہے ہیں۔ ہم عدم تشدد کے نظریہ کے ساتھ بڑھ رہے ہیں۔

اس موقع پر علی وزیر کا کہنا تھا کہ دو دن پہلے پرویز خٹک نے مذاکرات کی بات کی تھی اور بعد میں ہمارے قائد منظور پشتین کو گرفتار کیا گیا، ہم ریاست سے مطالبہ کرتے ہیں کہ اگر واقعی مذاکرات کرنا چاہتے ہیں تو حالات کو سازگار رکھنے کی کوشش کریں۔

ممبر قومی اسمبلی علی وزیرنےکہا کہ منظور پشتین گرفتاری پر ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ہم اس ریاست کے خلاف نہیں ہیں، منظور پشتین کے خلاف آئین کے خلاف بات کرنے کا الزام غلط ہے، ریاست نے بلوچوں، پشتونوں سے بات کرنے کا کہا مگر سیریس بات نہیں کی،  آپریشن زدہ علاقوں کے ہمارے لوگ اب بھی دھرنوں میں بیٹھے ہیں، منظور پشتین ان دھرنوں کیلیئے جارہے تھے کہ گرفتار کر لیا گیا۔ ہم بلوچ، پشتون، سندھی، سرائیکی، مہاجر، پنجابی سب مظلوموں کے ساتھ ہیں،  ہم مظلوم لوگوں کیلئے مزاحمت کریں گے۔

دوسری جانب پشاور ہائی کورٹ نے پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین کی درخواست ضمانت منسوخ کرکے انہیں ڈیرہ اسمٰعیل خان جیل منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔ صوبائی دارالحکومت کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن عدالت کے جج محمد یونس نے ڈیرہ اسمٰعیل خان پولیس کی پی ٹی ایم سربراہ کو ڈی آئی خان منتقل کرنے کی درخواست منظور کی۔

واضح رہے کہ منظور پشتین کے خلاف فرسٹ انفارمیشن رپورٹ (ایف ائی آر) ڈیرہ اسمٰعیل خان میں ہی درج ہے۔ عدالت میں ہونے والی سماعت کے دوران منظور پشتین کو پیش نہیں کیا گیا، تاہم ان کی نمائندگی ان کے وکیل شہاب خٹک، فرہاد آفریدی اور ایڈووکیٹ فضل نے کی۔

اس دوران ان کے وکیل کی جانب سے منظور پشتین کی راہداری ضمانت کی درخواست کی گئی، جسے مسترد کردیا گیا۔

خیال رہے کہ منظور پشتین کو ڈیرہ اسمٰعیل خان منتقل کرنے کے بعد جسمانی ریمانڈ کے لیے جوڈیشل مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیے جانے کا امکان ہے۔ واضح رہے کہ پی ٹی ایم کے سربراہ منظور پشتین کو 27 جنوری کو علی الصبح پشاور کے شاہین ٹاؤن سے گرفتار کیا گیا تھا۔

منظور پشتین کے خلاف مقدمہ تعزیرات پاکستان کی دفعات 506 (مجرمانہ دھمکیوں کے لیے سزا)، 153 اے (مختلف گروہوں کے درمیان نفرت کا فروغ)، 120 بی (مجرمانہ سازش کی سزا)، 124 (بغاوت) اور 123 اے (ملک کے قیام کی مذمت اور اس کے وقار کو تباہ کرنے کی حمایت) کے تحت درج کیا گیا۔



ایف آئی آر کی نقل کے مطابق 18 جنوری کو ڈیرہ اسمٰعیل خان میں منظور پشتین اور دیگر پی ٹی ایم رہنماؤں نے ایک جلسے میں شرکت کی جہاں پی ٹی ایم سربراہ نے مبینہ طور پر کہا کہ 1973 کا آئین بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی۔ ایف آئی آر کے مطابق پشتین نے ریاست سے متعلق مزید توہین آمیز الفاظ بھی استعمال کیے۔

سماجی کارکنوں اور سیاستدانوں کی جانب سے پشتون تحفظ تحریک کے بانی رہنما منظور پشتین کی گرفتاری کی شدید مذمت کی جا رہی ہے۔

منظور پشتین کی گرفتاری پر سیاستدان بشریٰ گوہر نے لکھا کہ وہ اس گرفتاری کی بھرپور مذمت کرتی ہیں۔ بجائے ان کو دکھوں کا مداوا کرنے کے، سکیورٹی فورسز ایسے پشتونوں کی گرفتاریاں عمل میں لا رہی ہیں جو اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں۔



خرم قریشی نے لکھا کہ ایک بار پھر ریاست نے ثابت کیا ہے کہ وہ کس قدر کوتاہ بین ہے۔



@gabeeno نے لکھا کہ کل خبر آئی تھی کہ پرویز خٹک نے پشتون تحفظ تحریک سے رابطہ کیا ہے اور انہیں قبائلی علاقوں کی بہتری کے لئے ساتھ مل کر چلنے کی دعوت دی ہے، اور آج منظور کو گرفتار کر لیا گیا۔



صحافی و سماجی کارکن عمران خان نے گذشتہ برس وزیرستان کے جلسے کی تصویر پوسٹ کرتے ہوئے لکھا کہ ان عوام کے رہنما کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔



پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکن اسد ذوالفقار خان نے لکھا کہ پاکستانیوں کو سر شرم سے جھکا لینے چاہئیں۔



عمار رشید نے لکھا ہے کہ ریاست ایک غیر مسلح تحریک کو خاموش کروانے کی کوشش کر رہی ہے۔



سماجی کارکن ثنا اعجاز کہتی ہیں کہ ریاست خیبر پختونخوا سے ابھرتی ہوئی اس تحریک کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔



 

 
مزیدخبریں