انہوں نے ہم نیوز کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کو سیاسی معاملات میں نہیں الجھانا چاہیے کیونکہ یہ سیاسی ایشو ہے، نااہلی کی درخواست پرسماعت ہی نہیں ہونی چاہیے، نااہلی درخواست کی کوئی گراوَنڈ ہی نہیں بنتی، سپریم کورٹ کو سیاسی معاملات میں نہیں الجھنا چاہیے، ہمیں غلطیوں سے سبق سیکھ کر آگے بڑھنا ہوگا، نااہلی کی مدت سے متعلق قانون سازی کیلئے بہترین فورم پارلیمنٹ ہے۔
اٹارنی جنرل خالد جاوید نے کہا کہ میری ذاتی رائے ہے کہ 62 ون ایف آئین میں ہونا ہی نہیں چاہیے، قانون کو پارلیمنٹ میں لے کر آئیں، حکومت کی طرف سے میں پیشکش کرتا ہوں کہ تاحیات نااہلی کا معاملہ پارلیمان میں لائیں، ہم غورکرنےکیلئےتیارہیں، یہ ایک جماعت کا ایشو نہیں ہے، بلکہ پورے ملک اور تمام جماعتوں کا ایشو ہے۔ واضح رہے سپریم کورٹ میں تاحیات نااہلی کے خلاف درخواست دائر کردی گئی ہے جس میں اپیل کے حق کے بغیر تاحیات نااہلی کو بنیادی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر احسن بھون نے تاحیات نااہلی کے خلاف درخواست دائر کی۔درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ تاحیات نااہلی کے اصول کا اطلاق صرف انتخابی تنازعات میں استعمال کیا جائے اور آرٹیکل 3/184 کے اختیار کے تحت سپریم کورٹ بطور ٹرائل کورٹ امور انجام نہیں دے سکتی اس سلسلے میں مزید موقف اختیار کیا گیا کہ آرٹیکل 184 کی شق تین کے تحت عدالتی فیصلے کیخلاف اپیل کا حق نہیں ملتا اور عدالتی فیصلے کے خلاف اپیل کا حق نہ ملنا انصاف کے اصولوں کے منافی ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ اپیل کے حق کے بغیر تاحیات نااہلی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے اور متعلقہ حلقے کے ووٹرز کے بنیادی حقوق کی بھی خلاف ورزی ہے۔یاد رہے کہ 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ نے شریف خاندان کے خلاف پاناما لیکس کیس کا فیصلہ سناتے ہوئے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا تھا رواں سال دسمبر 2017 میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے مرکزی رہنما اور اس وقت کے سیکریٹری جنرل جہانگیر ترین کو فارنگ فنڈنگ کیس میں نااہل قرار دیا گیا تھا تاہم اس فیصلے کے بعد اس بحث کا آغاز ہوا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہل قرار دیے گئے ارکان اسمبلی کی نااہلی کی مدت کتنی ہوگی، جس کے بعد اس مدت کا تعین کرنے کے لیے اس وقت کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں سپریم کورٹ کا 5 رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ نے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کیس کے فیصلے میں کہا تھا کہ آئین کی اس شق کے ذریعے نااہل قرار دیے گئے ارکانِ پارلیمنٹ تاحیات نااہل ہوں گے۔چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس شیخ عظمت سعید، جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل 5 رکنی لارجر بینچ نے آرٹیکل 62 (1) (ایف) کے تحت نااہلی کی مدت کی تشریح کے لیے 13 درخواستوں کی سماعت کے بعد 14 فروری 2018 کو محفوظ کیا گیا فیصلہ سنایا تھا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے دیے گئے فیصلے میں کہا گیاتھا کہ آئین کا آرٹیکل 62 ون ایف اسلامی اقدار کے مطابق ہے اور اس کی یہی ممکنہ تشریح بنتی ہے۔فیصلے میں کہا گیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کی اپنی حثیت ہے، جس کا مقصد پارلیمان میں دیانتدار، راست گو اور شفاف اراکین منتخب ہوں۔عدالتی فیصلے کے مطابق 18 ویں ترمیم میں آرٹیکل 63 میں مدت کا تعین ہوا اور آرٹیکل 62 ون ایف میں نااہلی کی مدت کا تعین نہیں ہوا، آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہوگی اورجب تک سپریم کورٹ کا فیصلہ رہے گا، نااہلیت بھی رہے گی۔
فیصلے میں کہا گیا تھا کہ آئین کے آرٹیکل 17 اے سے 62 ون ایف متاثرنہیں ہوتا، اس کے ساتھ ساتھ آرٹیکل 62 ون ایف کا 63 ون ایچ سے موازنہ نہیں ہوسکتا اور کسی شخص کے خلاف عدالتی حکم ہوکہ وہ صادق اورامین نہیں تو وہ رکن پارلیمان نہیں بن سکتا۔یاد رہے کہ آئین کی مذکورہ شق کے تحت تاحیات نااہلی کے مدت کے تعین کے حوالے سے پانچوں ججوں کا متفقہ فیصلہ جسٹس عمر عطا بندیال نے تحریر کیا تھا جبکہ 60 صفحات پر مشتمل اس فیصلے میں جسٹس عظمت سعید کے 8 صفحات کا اضافی نوٹ بھی شامل کیا گیا تھا۔
اس اضافی نوٹ میں جسٹس عظمت سعید نے لکھا تھا کہ انہیں فیصلے سے اتفاق لیکن اس کی وجوہات سے مکمل اتفاق نہیں ہے، آرٹیکل 62 ون ایف کی بنیاد ہماری اسلامی اقدار ہیں اورایسی شقوں کی تشریح انتہائی محتاط انداز میں کرنی چاہیے