تفصیلات کے مطابق جیو نیوز کے ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہمارے پاس کوئی ثبوت نہیں جس کی بنیاد پر نواز شریف کی میڈیکل رپورٹس کو جعلی کہہ سکیں تاہم مسلم لیگ ن کے قائد کی واپسی کے معاملے پر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں چاہتے بلکہ ہم چاہتے ہیں یہ معاملہ عدالت میں جائے بغیر ہی حل ہو جائے ۔
تاحیات ناہلی کو ختم کرنے کے حوالے سے سپریم کورٹ بار کی آئینی درخواست سے متعلق پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے اٹارنی جنرل آف پاکستان نے کہا کہ تاحیات نااہلی کے معاملے کو عدالت کی بجائے پارلیمنٹ میں لایا جائے تو وہاں اتفاق رائے حاصل کرنے کی کوشش کی جا سکتی ہے۔
خیال رہے کہ چند روز قبل ہی اٹارنی جنرل آفس نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی واپسی کا بیان حلفی دینے پر صدر ن لیگ شہباز شریف کو ایک خط لکھا ہے ، اٹارنی جنرل آف پاکستان کی جانب سے شہبازشریف کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ 16 نومبر 2019ء کو لاہور ہائی کورٹ نے نوازشریف کو باہرجانے کی اجازت دی ، ڈاکٹرز کی ہدایات روشنی میں نوازشریف کو باہر جانے کی اجازت چار ہفتوں کے لیے تھی ، میڈیا رپورٹس سے پتہ چلا اب نوازشریف کی طبیعت بہتر ہے تاہم نواز شریف جب باہر گئے تو ان کی حالت بڑی نازک بتائی گئی تھی لیکن نوازشریف جیسے ہی لندن پہنچے ان کی حالت بہتر ہوگئی ، لندن جانے کے بعد نواز شریف ایک بھی دن ہسپتال میں داخل نہیں رہے ، نوازشریف کی سیاسی اور سماجی سرگرمیاں جاری ہیں۔
میڈیا ذرائع کا کہنا ہے کہ اٹارنی جنرل آفس کی طرف سے لکھے جانے والے خط میں لاہور ہائی کورٹ میں دی گئی گارنٹی کا حوالہ دیا گیا ہے اور شہبازشریف کو لاہور ہائی کورٹ میں دیئے گئے بیان حلفی پر عمل درآمد کی تلقین کی گئی ہے ، شہبازشریف کو بیان حلفی پر عمل درآمد کے لیے مخصوص وقت بھی دیا گیا ہے اور عمل درآمد نہ کرنے کی صورت میں انہیں توہین عدالت کی کارروائی سے متنبہ کیا گیا ہے۔
خط میں کہا گیا کہ وفاقی کابینہ نے ہدایات جاری کی ہیں کہ انڈر ٹیکنگ کی خلاف ورزی پر آپ کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے ، ہائی کورٹ حکم نامے پرپنجاب حکومت نے میڈیکل بورڈ بنایا جس نے نوازشریف کی فراہم کردہ میڈیکل رپورٹ کو ناکافی قرار دیا ہے ، میڈیکل بورڈ کی رپورٹ سے عیاں ہے آپ میڈیکل رپورٹ دینے میں ناکام رہے ، اس لیے انڈرٹیکنگ خلاف ورزی پر آپ کے خلاف ہائی کورٹ رجوع سے پہلے خط لکھ رہے ہیں ، خط ملنے کے 10دن میں نوازشریف کی میڈیکل رپورٹس جمع کرائیں ، ورنہ آپ کے خلاف لاہورہائی کورٹ سے رجوع کریں گے۔