یہ قطعی طور پر ناقابل قبول ہے ۔ یہ اعداد و شمار معتبر ذرائع جیسے دی اکانومسٹ انٹیلی جنس یونٹ، ورلڈ بینک کے سی پی آئی اے، ورلڈ اکنامک فورم، ورلڈ جسٹس پراجیکٹ کے رول آف لاء انڈیکس وغیرہ سے حاصل کیے گئے ہیں ۔ یہ انتہائی قابل احترام ذرائع ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی تمام رپورٹس میں استعمال کیے جاتے ہیں ۔ ان کے ذریعے ممالک اور کسی بھی ملک کی سال بہ سال ترقی یا تنزلی کا موازنہ کیا جاتا ہے ۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ تحریک انصاف حکومت کے پروپیگنڈہ کرنے والوں نے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل پاکستان کو ہدف تنقید بنایا جب کہ اس ٹرسٹ کی منتخب چیئرپرسن کوئی اور نہیں بلکہ پاکستان کی سب سے مشہور آرکیٹیکٹ اور اربن ریوائیولسٹ، یاسمین لاری ہیں ۔ اس کی وائس چیئرپرسن ڈاکٹر ناصرہ اقبال ہیں جو لاہور ہائی کورٹ کی سابق جج ہیں اور جن کے بیٹے ولید اقبال پی ٹی آئی کے سینیٹر ہیں۔ وہ پی ٹی آئی کے صدر پاکستان عارف علوی کو اس کے بانی اراکین میں شمار کرتے ہیں! لیکن عمران خان نے محض شہ سرخیوں میں میدان مارنے کے لیے دعویٰ کیا کہ اُنھوں نے 2018 میں اپنے دور حکومت کے پہلے 90 دنوں میں پاکستان سے تمام کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا تھا۔ دوسری طرف رواں ہفتے انہوں نے اپنے انسداد بدعنوانی کے زار شہزاد اکبر کو ناکامی پر قربانی کا بکرا بنایا ہے کیوں کہ وہ چار سالوں میں حزب اختلاف کے مبینہ ”بدعنوان“ راہ نماؤں میں سے کسی ایک کو بھی سزا دلانے میں کامیاب نہیں ہوئے تھے۔
پی ٹی آئی کا عوامی بیانیہ پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کی بدعنوانی کے موضوع کے گرد گھومتا ہے ۔ لیکن اب سات سال کی تحقیقات، جنہیں پی ٹی آئی نے ہر ممکن طریقے سے روکنے کی کوشش کی،کے بعد الیکشن کمیشن نے اسی پارٹی پر الزام لگایا ہے کہ عمران خان اور دیگر عہدیداروں کی جانب سے بڑے پیمانے پر غیر ملکی فنڈنگ کے فراڈ کا ارتکاب کیا گیا ہے ۔ اس تنظیم کی معاونت کرنے والی اسکروٹنی کمیٹی کو حکومت نے منتخب کیا تھا ۔ یہ حکومت کو کلین چٹ دینے کے لیے تیار تھی ۔ لیکن فراڈ کا حجم ہی اتنا زیادہ تھا کہ الزام لگائے بغیر نہ رہ سکی ۔ اس کی رپورٹ کو عوامی سطح پر پھیلانے سے روکنے کی کوششیں بھی ناکام ہو چکیں ۔ جلد ہی سامنے آنے والی ہوش ربا بدعنوانی عمران خان کا اصل چہرہ عوام کو دکھا دے گی ۔ درحقیقت اب صرف کچھ دیر کی ہی بات ہے جب الیکشن کمیشن حکومت کو خط لکھے گا کہ وہ اپنے نتائج سے پاکستان گزٹ کو مطلع کرے اور انہیں سپریم کورٹ کو بھیجے تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ آیا عمران خان کو نااہل قرار دیا جانا چاہیے یا نہیں۔
تحریک انصاف کی بدعنوانی پر دو اور رپورٹیں لائق تبصرہ ہیں۔ ایک کاتعلق نیب کے چیئرمین، سابق جسٹس جاوید اقبال سے ہے، جنھوں نے قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی جانب سے اپنے ادارے کی ”کارکردگی” کے بارے میں بریفنگ کے لیے طلب کیے جانے کی مخالفت کی ۔ نیب کو بڑی حد تک تحریک انصاف ایگزیکٹو کا ہتھیار قرار دیا جاتا ہے ۔ اس کے چیئرمین کو مبینہ طور پر وزیر اعظم آفس کی طرف سے بلیک میل کیا جا رہا ہے کہ وہ اس کے احکامات کی بلاچوں چراں تعمیل کرتے رہیں۔ بصورت دیگر چیئرمین کی ایک ویڈیو ایک ٹی وی چینل کے پلیٹ فارم پر پراسرار طور پر منظر عام پر آئی تھی جس کا مالک پی ٹی آئی کے قریب ہے۔ اس کے بعد سے چیئرمین نیب نے تحریک انصاف حکومت کی سرکردہ شخصیات کے پیچھے جانے سے گریز کیا ہے۔ اب پشاور ہائی کورٹ یہ پوچھ رہی ہے کہ نیب نے خیبر پختونخوا میں متعدد منصوبوں کی تحقیقات کیوں روک دی ہیں؟ ان میں خاص طور پر مالم جبہ ریزورٹ، بلین درخت لگانے کا منصوبہ، خیبر بینک وغیرہ شامل ہیں ۔ عمران خان کے منتخب وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی قیادت میں صوبہ پنجاب میں جاری بدعنوانی کا تو کچھ مت پوچھیں ۔ سول سروس کے عہدے سب سے زیادہ بولی لگانے والوں کو نیلام کیے جاتے ہیں۔ زمینوں پر قبضے روزمرہ کا معمول ہیں۔لوگوں کی ترقی کے لیے مختص صوبائی اور لوکل گورنمنٹ کے عوامی فلاح و بہبود کے لیے رکھے گئے فنڈز سے اربوں روپے کا خرد برد کیا جاتا ہے۔در حقیقت میں سب سے زیادہ سرگوشیاں وزیر اعظم کے خاندان، دوستوں اور ساتھیوں کی بابت کی جارہی ہیں۔ بدعنوان یا نااہل پولیس اہلکاروں، سرکاری ملازمین یا مشیروں کی فہرست جن کا باقاعدہ تبادلہ یا برطرف کیا جاتا ہے، میں روز بروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
عمران خان کے مسٹر کلین کے فسانے کا بھرم کھل رہا ہے ۔ لوگ جاننا چاہتے ہیں کہ زمان پارک، لاہور میں شاندار نئے گھر اور کانسٹی ٹیوشن ایونیو اسلام آباد میں لگژری اپارٹمنٹ کو کس اے ٹی ایم نے فنڈ فراہم کیا۔ 2020-21 میں راتوں رات آمدنی کے ذرائع کے بارے میں سوالات پوچھے جا رہے ہیں جس پر خان نے مبینہ طور پر تقریباً 10 ملین روپے انکم ٹیکس ادا کیا ہے۔ نڈر رپورٹرز نے ایسے لوگوں کا سراغ لگایا جنہوں نے شوکت خانم میموریل ہسپتال کو دل کھول کر چندہ دیا لیکن یہ جان کر حیران رہ گئے کہ ان کے عطیات پی ٹی آئی کے خزانے میں جمع کیے گئے۔ ایک عشرہ قبل سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے جمع ہونے والے اربوں روپوں پر بھی پردہ پڑا ہو اہے۔ شوکت خانم میموریل ٹرسٹ کے فنڈز کی سرمایہ کاری کے کئی ملین ڈالر وں کا رخ عمران خان کے دوستوں اور ساتھیوں کی طرف دکھائی دیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ عمران خان کی وسیع و عریض بنی گالہ اسٹیٹ کو کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے عجلت میں ”ریگولرائز” کر دیا ہے جب کہ دیگر کئی غیر قانونی تعمیرات ابھی تک منظوری کے منتظر ہیں (ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سی ڈی اے کے چیئرمین جنہوں نے گریٹ خان کو سوالنامہ جمع کرانے کی جرات کی تھی، سے اپناسامان باندھنے کا کہا گیا)۔ مت بھولیں کہ سابقہ شریک حیات ریحام خان کی سوانح عمری ان سخی دوستوں سے بھری پڑی ہے جو ان کے گھر، سفر اور گاڑیاں وغیرہ کا خرچ اُٹھاتے رہے ہیں۔اقتدار کی قربت بڑے انعامات کی توقعات کے بغیر نہیں ہوتی۔
اب عمران خان اسٹیبلشمنٹ کو خبردار کر رہے ہیں جس نے انہیں اقتدار میں لایا تھا کہ اگر انہیں باہر نکالا گیا تو وہ سڑک پر زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے۔ اچھی خبر یہ ہے کہ اس خطرے کو اب سوشل میڈیا پر بے حد مقبول میمز میں چیلنج کیا جا رہا ہے جو ایک تباہ کن نئی حقیقت کی عکاسی کرتے ہیں۔ شہنشاہ کے پاس کپڑے نہیں ہیں۔ جب وہ سڑک پر نکلے گا لوگ اس کی تعریف نہیں کریں گے۔ اب شہنشاہ مذاق اور طعنہ زنی کا نشانہ بنے گا۔