ہم جب ماہیت کا تجربہ کرتے ہیں تو ہمارے ذہن میں وجود کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔ وجود خود سے اصالت نہیں رکھتا، خارج میں صرف ماہیت ہوتی ہے۔ دماغ میں وجود چیزوں کی ماہیت کے ہو بہو عکس کی شکل میں نہیں بلکہ ذرات کی ترتیب کی شکل میں محفوظ ہوتا ہے۔[1] چیزیں حقیقت میں ماہیت ہوتی ہیں اور ان کی ماہیت کے بدلنے سے ہمارے ذہن میں ان کا وجود بھی بدل جاتا ہے۔ جیسے میز کو توڑ کر کرسی بنا لی جائے تو اس کی جگہ نیا وجود لے لیتا ہے۔ جدید سائنس و ٹیکنالوجی اصالتِ ماہیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ لیبارٹری میں تجربات ماہیت پر ہوتے ہیں اور جدید ایجادات کی ماہیت سامنے آنے پر ان کے وجود کا مفہوم پیدا ہوتا ہے۔ موبائل فون دو عشرے پہلے وجود نہیں رکھتا تھا، اس کی ماہیت ترتیب پائی تو کائنات میں ایک نئے موجود کا اضافہ ہوا اور ماہیت میں تبدیلیوں سے وہ سمارٹ فون کا وجود اختیار کر گیا۔ اس کے برعکس اصالتِ وجود کا مغالطہ کوئی پیش گوئی فراہم نہیں کرتا، الٹا علمی پیش رفت کو روکتا ہے۔ جو لوگ اس بات کو زیادہ بہتر انداز میں سمجھنا چاہیں وہ دسویں جماعت کی سائنس کی کتابوں کے ابواب کے آخر میں دیے گئے سوالات کو اصالتِ وجود کی روشنی میں حل کرنے کی کوشش کریں۔
یہی معاملہ خود شناسی کا بھی ہے۔ حمل ٹھہرنے سے پہلے بچے کے اجزا والدین کے وجود کی شناخت میں شامل ہوتے ہیں اور جب والدین سے جدا ہو کر ایک الگ ترتیب میں اکٹھے ہوتے ہیں تو بچے کی ماہیت بنتی ہے۔ اپنے ہونے کا احساس پیدائش کے کئی ماہ بعد بچے میں پیدا ہوتا ہے جو اپنی ماہیت کے تجربے کی تکرار کا نتیجہ ہوتا ہے۔ بچے کے دماغ میں اپنے وجود کا تصور بننے میں ایک عرصہ لگتا ہے، جو بار بار آنے والے عصبی پیغامات کے دماغ میں حافظے کا حصہ بن جانے کا نتیجہ ہوتا ہے۔ اس سے پہلے والدین اور دوسروں کے لیے تو وہ موجود ہوتا ہے کہ وہ اس کے کلی وجود کا تجربہ کر رہے ہوتے ہیں، لیکن اپنے ہونے کا احساس اسے زندگی کے ابتدائی ناگزیر تجربات کے بعد ہوتا ہے۔ قرآنِ کریم میں آیا ہے:
وَاللَّهُ أَخْرَجَكُم مِّن بُطُونِ أُمَّهَاتِكُمْ لَا تَعْلَمُونَ شَيْئًا. (اللہ تعالیٰ نے تمہیں تمہاری ماؤں کے پیٹوں سے نکالا ہے کہ اس وقت تم کچھ بھی نہیں جانتے تھے۔ سورہ النحل، آیت 78)
انسان کا بچہ بڑا ہو کر زبان سیکھتا ہے اور ثقافت سے تعامل کے نتیجے میں اپنی زندگی کا معنیٰ essence تلاش کرتا ہے۔ اور اس طرح اس کا وجود تشکیل پاتا ہے، اور اس عمل میں وہ نہ پوری طرح آزاد ہوتا ہے اور نہ جبرِ محض کا تابع ہوتا ہے۔
پتھروں، کرسی، میز، بریانی کی پلیٹ میں پڑی مرغی کی ٹانگ، وغیرہ میں چونکہ عصبی نظام (nervous system) نہیں ہوتا لہٰذا ان میں اپنے وجود کی تصویر بھی نہیں بنتی۔ عصبی نظام کی معلومات کو ماضی میں علمِ حضوری کہا جاتا تھا، اب پتا چلا ہے کہ یہ بھی علمِ حصولی کا ہی شعبہ ہے اور جہاں عصبی نظام خطا کھا جائے، وہاں علمِ حضوری میں نقص آ جاتا ہے۔ جیسا کہ 2013 میں اونچائی سے گرنے کے بعد ہسپتال جا کر ٹیکہ لگنے سے عمران خان صاحب کا درد خوشی میں بدل گیا تھا۔[2] سائنس عقل کی عصمت کی منکر ہے، اسی لیے اس میں اصلاح ہوتی رہتی ہے۔
ایران میں سولہویں اور سترہویں صدی عیسوی میں فلسفے کا مکتبِ اصفہان وجود میں آیا جس کی بنیاد اصالتِ وجود کے مغالطے پر تھی۔ یہ وہی زمانہ تھا جب یورپ میں یونانی خیالات سے آزادی کا نتیجہ جدید سائنس کی تشکیل کی شکل میں نکل رہا تھا لیکن وہ کتابیں عربی میں ترجمہ نہیں ہو رہی تھیں۔ مکتبِ اصفہان کا عروج ملا صدرا (متوفیٰ 1640 عیسوی) کی شکل میں ہوا، جو اپنے ناول ‘اسفارِ اربعہ‘ کی ابتدا ہی اصالتِ وجود کے مغالطے سے کر کے بعد میں وحدتِ وجود کی تائید اور معادِ جسمانی کے انکار تک جا پہنچتے ہیں۔ ان نظریات کے خلاف شیعہ متکلمین نے شدید ردِ عمل دیا اور ان کے آپس میں دوری بہت ہو گئی۔ چنانچہ ملا صدرا نے ‘رسالہٴ سہ اصل‘ کے عنوان سے ایک مستقل کتابچے میں دوسرے علماء کے خلاف خوب بھڑاس نکالی۔ علامہ مجلسی (متوفیٰ 1699 عیسوی) اپنے ‘رسالہٴ لیلیہ‘ میں لکھتے ہیں:
'صوفیوں کی بد اخلاقی کا یہ حال ہے کہ کوئی ان سے بات نہیں کر سکتا۔ ان میں تکبر اور احساسِ برتری اتنا ہے کہ خود کو انبیاءؑ سے بھی بلند سمجھتے ہیں۔ یہ سب کو کمتر سمجھتے اور لوگوں سے دوری اختیار کرتے ہیں۔ یہی زوال ان کی باقی اقدار پر بھی آیا ہے لیکن اس کا احساس اُسے ہوتا ہے جو اِن کے ساتھ کچھ وقت گزار لے۔'[3]
فلسفے کے مکتبِ اصفہان نے جہاں ایک طرف شیعہ مدارس میں عقلی علوم کو پسند کرنے والوں کو تصوف کے اندھیرے میں دھکیلا، وہیں عقلی علوم کو متکلمین کی نظر میں مشکوک بنا دیا، جس سے سائنسی کام کے لیے درکار افرادی قوت بہت کم ہو گئی۔ چنانچہ مسلمانوں کی سائنس پر جو اثر خواجہ طوسی (متوفیٰ 1274 عیسوی) نے ڈالا تھا اور منگول حملے کے بعد اسے نئی زندگی بخشی تھی، ملا صدرا کا کام اس کا الٹ ثابت ہوا اور انہوں نے سب کچھ تباہ کر دیا۔ اب اس فلسفے کو خیرباد کہنے کا وقت آ گیا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ مدارس میں فلسفے کا نصاب کچھ تاریخِ فلسفہ پڑھانے کے بعد جدید علوم کے خلاصے پر مشتمل ہو تاکہ طلاب قدماء کی غلط فہمیوں میں وقت ضائع نہ کرتے رہیں۔
دلیل بر اصالتِ ماہیت از آیۃ اللہ جواد تہرانی
بیسویں صدی عیسوی میں ایران کے شہر مشہد میں آیۃ اللہ مہدی اصفہانی (متوفیٰ 1945 عیسوی) نے شیعہ دینی فلسفے میں مکتبِ خراسان کی بنیاد رکھی جو عقل کی عصمت کا منکر ہے۔ البتہ اس مکتب کو زیادہ سرکاری سرپرستی نہیں مل سکی اور مخالفین نے اسے مکتبِ تفکیک کا نام دے کر عقل دشمن قرار دیا۔ ذیل میں اس مکتب کے ایک نمائندے آیۃ اللہ جواد تہرانی (متوفیٰ 1989 عیسوی) کی کتاب ‘ عارف و صوفی چہ می گویند‘ سے ایک فصل کا ترجمہ پیش کیا جا رہا ہے تاکہ قاری میں باقی کتاب کے مطالعہ کا شوق پیدا ہو:
‘اب ہم اصالتِ ماہیت کے اثبات میں یہ کہنا چاہیں گے کہ:
ہر باشعور عقل مند انسان جب خدا کے دیے ہوئے فہم و شعور اور علم و عقل کی روشنی میں خارجی حقائق کا مشاہدہ کرتا ہے تو کہتا ہے کہ اشیا اور ماہیات، مثلاً انسان، گھوڑا، گائے، درخت، پتھر، وغیرہ، خارج میں، حقیقت میں اور اولیت کے ساتھ ذاتی طور پر حقیقی اور واقعی ہیں۔ یعنی انسان اپنی فطرتِ سلیم کے ساتھ اس فیصلے پر پہنچتا ہے کہ ذہن سے باہر انسان، گھوڑا، گائے، درخت، پتھر وغیرہ حقیقتاً متحقق ہیں۔ (نہ یہ کہ یہ چیزیں اور ماہیات ثانوی اور مجازی اور عرضی حیثیت میں ہوں اور ایک علیحدہ چیز بنام ‘وجود’ اولیت رکھتے ہوئے ذاتی حیثیت میں موجود ہو اور ان چیزوں کے تحقق میں واسطے کا کردار ادا کرتی ہو۔) وجود کا عنوان محض ایک مفہوم ہے جو ان اشیا اور ماہیات سے اخذ کرنا اور ان سے منسوب کرنا انسان کی مجبوری ہے۔
دوسرے الفاظ میں انسان فطری شعور کی روشنی میں واقعیاتِ خارجیہ، مثلاً انسان، گھوڑا، گائے، درخت، پتھر، وغیرہ، کو مفاہیم کا حقیقی مصداق سمجھتا ہے۔ پس فطرتاً اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ انسان، گھوڑا، گائے، درخت، پتھر، وغیرہ ذہن سے باہر سچ مچ میں موجود اور متحق ہیں۔ اور وجود، جیسا کہ پہلے اشارہ کیا جا چکا ہے، محض ایک اخذ شدہ مفہوم ہے جو واقعیات سے اور ماہیت کے حقیقی مصادیق سے حاصل کیا جاتا ہے۔ پس ہم شعور کی روشنی اور عقل کی فطرت سے خارج میں ماہیت کے اصیل ہونے اور موجود بالذات ہونے کو درک کرتے ہیں نہ کہ اس کی اعتباریت و ذہنیت اور موجودیت بالعرض کو! (بیشتر توضیح کے لیے قاریانِ محترم کتاب کے حاشیے سے غافل نہ رہیں) ۔ یہ طے کرنا کہ ماہیت حقیقت میں متحقق اور موجود ہے (اولیت کے ساتھ اور بالذات، نہ مجازی یا ثانوی حیثیت میں بالعرض)، فطری ہے اور اس کو درک کرنا ہر عقل مند انسان کے لیے اپنی پاک صاف فطرت کے ساتھ بہت آسان ہے اور خارجی ماہیات کے حقیقی ہونے کا انکار اپنے آپ پر زبردستی ٹھونسے بنا ممکن نہیں اور یہ فطرتاً جائز نہیں ہے۔ اور ایسے میں کہ ابھی تک اس فطرت کے خلاف ہمارے نزدیک کوئی دلیل و برہان بھی قائم اور تمام نہیں ہو سکی، عقلی طور پر یہ بات کیسے صحیح ہو سکتی ہے کہ ہم اس فطری تقاضے سے ہاتھ اٹھا لیں؟ فَأَقِمْ وَجْهَكَ لِلدِّينِ حَنِيفًا ۚ فِطْرَتَ ٱللَّهِ ٱلَّتِى فَطَرَ ٱلنَّاسَ عَلَيْهَا ۚ لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ ٱللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ ٱلدِّينُ ٱلْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ ٱلنَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ. (پس آپ یک سو ہو کر اپنا منہ دین کی طرف متوجہ کر دیں۔ اللہ تعالیٰ کی وه فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بنائے کو بدلنا نہیں، یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے۔ سورہ روم، آیت 30)’[4]
حوالہ جات:
[1] وہارا امباکر، ”لچکدار دماغ (قسط 12)“، مکالمہ، 25 اکتوبر 2022ء
[2] https://www.bbc.com/urdu/pakistan-51278717
[3] علامہ باقر مجلسی، ”العقائد“، صفحہ 100، مؤسسۃ الہدیٰ للنشر والتوزیع،تہران، 1999ء
[4] آیۃ اللہ جواد تہرانی، ” عارف و صوفی چہ می گویند “، صفحات 277 تا 280،نشر آفاق، تہران، 2010ء