ہارنے والے تو روتے ہی ہیں
نتائج کے بعد سیاسی جماعتوں کا رونا حسب روایت ہے۔ شاید ان جماعتوں نے خود بھی نہیں سوچا ہوگا کہ عوام اس طرح انہیں رد کرے گی۔ صحیح یا غلط لیکن تحریک انصاف ایک بڑے مارجن سے انتخابات میں کامیاب ہو گئی ہے۔ لیکن اب جوبھی حکومت بنے گی اس کے لئے صورتحال مزید گھمبیر ہونے والی ہے۔ پاکستان کے متوقع وزیراعظم عمران خان نے اپنی پہلی تقریر میں سادگی کا درس دے کر احتساب کی باتیں کر کے اور عوام کے ٹیکس کی حفاظت کی باتیں کر کے عوام کو تو خوش کر دیا لیکن اصل پکچر تو ابھی باقی ہے جناب، کیونکہ اس وقت پاکستان تو نیا بن گیا لیکن مسائل وہی پرانے ہیں۔
اب 'نیا پاکستان' میں ان پرانے مسائل کا کیا ہوگا؟
پاکستان میں سیاسی تبدیلی تو آ گئی ہے مگر پاکستانی معیشت کوبحران سے نکالنا خان صاحب کی تقریر جتنا آسان اور سادہ نظر نہیں آ رہا۔ اس وقت پاکستان میں جہاں ڈالر کی قدر روپے کو کوڑیوں کے دام پر لے آئی ہے، جب پیٹرول صرف لوگوں کو خودکشی کے لئے ہی میسر آنے کی نوبت آ گئی ہے، جب تجارتی خسارا جون 2018 تک 33 ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے، جب گذشتہ چار سال کے دوران پاکستان کے بیرونی قرضے 31 ارب ڈالر کے اضافے کے بعد 91 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں، سونے پر سہاگہ یہ کہ ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ یہ قرض آئندہ چند ماہ میں ایک سو ارب ڈالر کو عبور کرسکتا ہے، جس قرض کو اتارنے کے لئے پاکستان کو سال 2022-23 تک 31 ارب ڈالر کی ضرورت ہوگی، موجودہ صورتحال میں سٹیٹ بینک کے پاس محض 9 ارب ڈالر کے زرمبادلہ ذخائر رہ گئے ہیں۔ ان مشکل ترین حالات میں پاکستان کے پاس کوئی چارہ نہیں رہ گیا کہ وہ قرض دینے والے عالمی مالیاتی اداروں سے قرض لے اور اس قرض کے ساتھ بہت سی ایسی شرائط بھی ماننی پڑیں گی جو کہ نئی حکومت کے معاشی ایجنڈے سے میل نہ کھاتی ہوں۔ دوسری جانب عوام نے تواقعات تبدیلی کی لگائی ہوئی ہیں۔ ایسے میں اگر پاکستان تحریک انصاف ان کی امیدوں پر پوری نہیں اتری تو جو شعور کی لو خود عمران خان نے عوام میں جگائی ہے، اسی میں عوام ان کو جلا کر گھر بھیج دے گی۔