بھارتی جاسوس کلبھوشن سے متعلق متنازع آرڈیننس قومی اسمبلی میں پیش، اپوزیشن کی جانب سے پراسرار خاموشی

11:47 AM, 28 Jul, 2020

نیا دور
حکومت نے بھارتی جاسوس کلبھوشن کو عالمی عدالت انصاف کے فیصلے کے تحت قونصلر رسائی دینے سے متعلق متنازع آرڈیننس قومی اسمبلی میں پیش کر دیا۔ اس موقع پر اپوزیشن کی جانب سے پراسرار خاموشی دیکھنے کو ملی جو پہلے اس پر سخت احتجاج اور اجلاس کا بائیکاٹ کر کے اسے روکنے کی کوشش کررہی تھی۔

ڈان نیوز سے حاصل معلومات کے مطابق وزیراعظم کے مشیر برائے پارلیمانی امور بابر اعوان نے مئی میں نافذ کردہ آئی سی جے (ریویو اینڈ ریکنسڈریشن) آرڈیننس 2020 سمیت 5 آرڈیننس ایوان میں پیش کیے اور اپوزیشن کی جانب سے کسی نے بھی کوئی اعتراض نہیں اٹھایا۔

تاہم اجلاس ملتوی ہونے سے چند لمحے قبل جمعیت علمائے اسلام ف کی رکن شاہدہ اختر علی نے متنازع آرڈیننس پر بات کی اور حکومت کو مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے ایک سال مکمل ہونے سے چند روز قبل بھارتی جاسوس کو سہولت فراہم کر نے پر تنقید کا نشانہ بنایا۔

واضح رہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گذشتہ ہفتے ایوان میں آرڈیننس پیش کرنے کے حکومتی اقدام کی مخالفت کی تھی اور آرڈیننس پیش ہونے سے روکنے کے لیے ایوان کی کارروائی سے بائیکاٹ کرنے کا بھی اعلان کیا تھا۔ تاہم گذشتہ روز وہ ایوان میں اس وقت داخل ہوئے جب تمام پانچوں آرڈیننس ایجنڈے کے مطابق پیش کیے جاچکے تھے، اجلاس میں انہیں فوراً بات کرنے کا موقع بھی ملا لیکن انہوں نے صرف ایجنڈے پر موجود بلز کے حوالے سے بات کی۔

خیال رہے کہ بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ اپوزیشن کا ضمیر انہیں اس بات کی اجازت نہیں دیتا کہ اجلاس کو ایجنڈے پر موجود آرڈیننس کے حوالے سے کارروائی کرنے دیں اور سپیکر اسمبلی اسد قیصر سے درخواست کی تھی کہ قانون سازی کی کارروائی مؤخر کریں اور ان بلز کو ایوان میں پیش کریں۔

بعدازاں بابر اعوان نے 8 بل ایوان میں پیش کیے جس میں انسداد منشیات (ترمیمی) بل 2020، کمپنیز(ترمیمی) بل 2020، انسداد منی لانڈرنگ (دوسری ترمیم) بل 2020 اور انسداد دہشت گردی (ترمیمی) بل 2020 شامل تھے۔ کلبھوشن سے متعلق آرڈیننس کے علاوہ مشیر پارلیمانی امور نے کمپنیز (ترمیمی) آرڈیننس 2020، کارپوریٹ ری اسٹرکچرنگ کمپنیز(ترمیمی) آرڈیننس 2020، کمپنیز (دوسری ترمیم) آرڈیننس 2020 اور پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ اتھارٹی (ترمیم) آرڈینسس 2020 بھی ایوان میں پیش کیا۔

خیال رہے کہ آئی سی جے آرڈیننس کی مخالفت کرتے ہوئے اپوزیشن نے حکومت کی جانب سے ایک دہشت گرد کو سہولت فراہم کرنے پر سوال کھڑے کیے تھے۔ اپوزیشن نے آرڈیننس کو سابق فوجی آمر جنرل پروز مشرف کے این آر او سے تشبیہ دی تھی جو سیاسی کیسز ختم کرنے کے لیے پیپلز پارٹی کے ساتھ ہوئی ڈیل کا حصہ تھا۔
مزیدخبریں