سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ذخیرہ اندوزی کہتے کسے ہیں؟
اگر ملکی ضرورت کے مطابق اشیا مارکیٹ میں موجود رہتی ہیں یا ضرورت سے زیادہ ہو تو اس سے اشیا کی مانگ نہیں بڑھتی جس کی بدولت قیمت مستحکم رہتی ہے یا پھر اس میں کمی واقع ہوتی ہے۔ اس کے برعکس جب ذخیرہ اندوز ان اشیا کو ذخیرہ کر لیں تو مانگ بڑھ جانے کی وجہ سے ان کی قیمتوں میں اضافہ ہو جاتا ہے۔
پاکستان میں اس وقت چینی اور آٹے کا مصنوعی بحران موجود ہے۔ اس مصنوعی بحران نے فلور مل اور شوگر مل مالکان کو اربوں روپے کی ناجائز منافع خوری فراہم کی ہے۔ اگر آٹے کی بات کی جائے تو پاکستان میں گندم وافر مقدار میں کاشت ہوتی ہے۔ جس سے نہ صرف ملک میں آٹے کی ضرورت پوری ہوتی ہے بلکہ اضافی ہونے کی وجہ سے اسے دیگر مملک میں بھی ایکسپورٹ کیا جاتا ہے۔ اس سال حکومت نے کسانوں سے گندم براہ راست خود خریدی ہے اور محکمہ خوراک کے مطابق ہر ضلع میں کھپت کے لحاظ سے گندم متعلقہ فلور ملوں کو دی جا رہی ہے۔ اس صورتحال میں آٹا بحران کی ذمہ داری فلور ملز پر اور حکومت پر عائد ہوتی ہے جو کہ اس غنڈہ گردی کو روکنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آرہی ہے۔
اس حکومتی ناکامی اور نااہلی کی وجہ سے ملک میں گندم کی قیمت بلند ترین سطح 2200 روپے فی من تک پہنچ گئی ہے۔ جبکہ ملک کے بڑے شہروں میں چکی کا آٹا 3000 روپے فی من تک فروخت ہو رہا۔
دوسری طرف چینی بحران کی بات کی جائے تو اس میں بھی صورتحال مختلف نہیں۔ شوگر ملز مالکان کے ذخیرہ اندوزی میں براہ راست ملوث ہونے کی وجہ سے ملک میں چینی کی قیمت میں گذشتہ دو مہینوں میں 20 روپے فی کلو تک کا ہوشربا اضافہ ہو چکا ہے اور پچاس کلو والے تھیلے کی قیمت 3500 سے بڑھ کر 4500 تک پہنچ گی ہے۔
آٹے کی طرح چینی کی قیمتوں میں بھی روز بروز ہونے والے اضافہ کو روکنے میں حکومت مکمل طور پر بے بس نظر آتی ہے۔ یہاں تک کہ وزیراعظم کے نوٹس لینے کے بعد بھی صورتحال میں تبدیلی نہیں آئی۔ اس صورتحال کے بعد یہ احساس شدت سے ابھرا کہ ذخیرہ اندوزی کی روک تھام کے لیے مروجہ قوانین مؤثر ثابت نہیں ہو رہے ہیں۔ جس پر وفاقی حکومت نے نئی قانون سازی کا فیصلہ کرتے ہوئے حال ہی میں ذخیرہ اندوزی سے متعلق ایک صدارتی آرڈیننس جاری کیا ہے۔
وفاقی وزیر قانون کے مطابق ارڈیننس کے تحت جن اشیا کی ذخیرہ اندوزی پر کارروائی ہو گی ان میں آٹا، چینی، چاول اور دالوں سمیت 32 بنیادی اشیا ضرورت شامل ہیں۔ ان اشیا کی ذخیرہ اندوزی پر تین سال قید اور مال بحق سرکار ضبط کر لیا جائے گا۔ آخر میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس متعلق قانون تو پہلے سے بھی موجود ہے مگر اس پر مناسب عملداری نا ہونے کی وجہ سے ملک اس گھمبیر صورتحال سے دوچار ہے۔ لہذا قانون سازی کے ساتھ ساتھ ان قوانین پر سختی سے عملدرآمد کروا کر ہی مطلوبہ نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں۔