ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی جانب سے 2017 میں دائر ہتک عزت کے مقدمے کے جواب میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ عوامی مفاد کے لیے اس واقعے کا تذکرہ کیا ایسا نہیں جو کسی کی بدنامی کا باعث بنا ہو۔
سیشن کورٹ میں ان کی قانونی ٹیم کی جانب سے دائر جواب میں کہا گیا کہ ’اس معاملے سے متعلق بیان بے بنیاد نہیں ہے کیونکہ یہ وقوع پذیر ہونے والے واقعہ پر مبنی تھا یعنی عمر فاروق کا دورہ اور پیش کش کا بار بار اظہار کرنا‘۔
جواب میں مزید کہا گیا کہ عمران خان نے اس واقعے سے متعلق بیان کو مدعی (شہبازشریف) سے منسوب نہیں کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ مدعی اور مدعا علیہ سیاسی حریف ہیں اور دو عشروں سے زیادہ عرصے سے سیاسی میدان میں ایک دوسرے کا سامنا کر رہے ہیں اور شہباز شریف خود ماضی میں پی ٹی آئی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں سمیت عمران خان کے خلاف بے بنیاد اور بدنیتی پر مبنی بیانات دیتے رہے ہیں۔
وزیر اعظم نے اپنے جواب میں اس بات کا اعادہ کیا کہ اس واقعے کا بیان عوامی مفاد میں، منصفانہ انداز میں جاری کیا گیا اور کسی بھی طرح سے یہ دعویٰ غلط یا بدنیتی پر مبنی نہیں تھا۔
عمران خان نے عدالت سے استدعا کی شہباز شریف کی جانب سے دائر مقدمہ خارج کردیا جائے۔
اپنے جواب میں وزیر اعظم نے کہا کہ ’وہ اس مقدمے کی سماعت کے لیے عدالت کے دائرہ اختیار کو بھی چیلنج کرتے ہیں‘۔
اس سے قبل وزیر اعظم عمران خان کی قانونی ٹیم نے عدالت کے دائرہ اختیار پر بھی سوال اٹھائے تھے تاہم خود ہی دستبرداری اختیار کرلی تھی۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج مدثر فرید نے مقدمے کی مزید سماعت 4 اگست تک ملتوی کردی۔
شہباز شریف کے قانونی ٹیم نے عدالت سے آئندہ سماعت پر فریم جاری کرنے کی درخواست کی۔
2017 میں دائر ہتک عزت کے مقدمے میں کہا گیا کہ عمران خان نے شہباز کے خلاف جھوٹے اور بدنیتی پر مبنی بیانات دینا شروع کیے کہ انہوں نے سپریم کورٹ میں زیر التوا پاناما پیپرز کا معاملہ واپس لینے کے عوض ایک مشترکہ دوست کے ذریعے انہیں 10 ارب روپے کی پیش کش کی۔
اس میں کہا گیا کہ شہباز شریف نے مدعا علیہ کو قانونی نوٹس دیا اور کہا کہ وہ پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ذریعے 14 دن کے اندر معافی مانگیں تاہم مدعا علیہ معافی مانگنے میں ناکام رہا اور مدعی کو ہرجانے کی وصولی کے لیے عدالت سے رجوع کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔
اس مقدمے میں استدعا کی گئی تھی کہ میڈیا کے ذریعے مدعا علیہ کی طرف سے مبینہ طور پر پھیلائے جانے والے بے بنیاد اور توہین آمیز بیانات نے مدعی کی سالمیت کو متاثر کیا اور یہ ان کے لیے انتہائی ذہنی اذیت اور اضطراب کا باعث بنا۔
اس نے عدالت سے مطالبہ کیا کہ وہ مدعی کے حق میں ہتک عزت آمیز مواد کی اشاعت کے معاوضے کے طور پر 10 ارب روپے کی وصولی کا حکم جاری کرے۔