وزیراعظم کے یہ ریمارکس اس وقت سامنے آئے جب امریکی فوج اور نیٹو افغانستان سے انخلا کے آخری مراحل میں ہیں۔
منگل کی رات کو نشر کیے جانے والے ایک امریکی نیوز پروگرام پی بی ایس نیوز آوور میں انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا کہ ’مجھے لگتا ہے کہ امریکا نے صورتحال بہت خراب کردی ہے‘۔
وزیر اعظم نے امریکا کو ’ افغانستان میں فوجی حل تلاش کرنے کی کوششوں پر تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ ایسا کبھی تھا ہی نہیں‘۔
ہمسایہ ملک افغانستان کی صورت حال کو وزیر اعظم نے ’بدترین‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ جہاں افغانستان خانہ جنگی کا شکار ہوسکتا ہے تو وہاں پر یہ مسئلہ بھی درپیش ہے کہ ’پاکستان کے نقطہ نظر سے یہ بدترین صورت حال ہے کیونکہ تب ہمیں دو مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے جن میں سے ایک مہاجرین کا مسئلہ ہے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پہلے ہی پاکستان 30 لاکھ سے زائد افغان مہاجرین کی میزبانی کررہا ہے اور ہمیں جو خدشہ لاحق ہے وہ یہ ہے کہ ایک طویل خانہ جنگی مزید مہاجرین کو لائے گی اور ہماری معاشی صورتحال ایسی نہیں ہے کہ ہم مزید آمد برداشت کرسکیں'۔
دوسرے مسئلے کی تفصیل بتاتے ہوئے انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ سرحد پار سے ہونے والی ایک ممکنہ خانہ جنگی ’پاکستان میں داخل ہوسکتی ہے‘۔
وزیر اعظم نے وضاحت کی کہ طالبان پشتون ہیں اور اگر یہ افغانستان میں خانہ جنگی کا آغاز ہوا تو ہماری طرف کے پشتون بھی اس کی طرف راغب ہوجائیں گے‘، ان کا کہنا تھا کہ ’ہم ایسا نہیں چاہتے ہیں‘۔
جب پاکستان کی افغانستان کو مبینہ فوجی، انٹیلیجنس اور مالی مدد کے بارے میں سوال کیا گیا تو وزیراعظم نے جواب دیا کہ ’مجھے یہ انتہائی غیر منصفانہ لگتا ہے‘۔
وزیر اعظم نے یاد دلایا کہ افغانستان میں امریکی جنگ کے نتیجے میں 70 ہزار پاکستانیوں نے اپنی جانیں دی ہیں جب کہ 11 ستمبر 2001 کو نیویارک میں ہونے والے واقعے کا پاکستان کا کوئی تعلق نہیں تھا‘، اس وقت القاعدہ افغانستان میں مقیم تھی اور ’پاکستان میں کوئی عسکریت پسند طالبان موجود نہیں تھے‘۔