قرارداد کے متن میں کہا گیا کہ آرٹیکل175 اے کے تحت ججوں کے تقرر کی توثیق پارلیمنٹ کا اختیار ہے، قوانین کی منظوری اور آئین میں ترمیم صرف پارلیمنٹ کا حق ہے۔
تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی میں عدالتی اصلاحات کیلئے مشترکہ پارلیمانی کمیٹی کے قیام کی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی گئی ہے، قرارداد وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے پیش کی۔
قرارداد میں کہا گیا کہ قوانین کی منظوری اور آئین میں ترمیم صرف پارلیمنٹ کا حق ہے، آئین انتظامیہ، مقننہ اور عدلیہ کے درمیان اختیارات تقسیم کرتا ہے، ریاست کا کوئی بھی ستون ایک دوسرے کے اختیارات میں مداخلت نہیں کرسکتا۔
آرٹیکل175 اے کے تحت اعلیٰ عدلیہ میں ججوں کے تقرر کی توثیق پارلیمنٹ کا اختیار ہے، پارلیمنٹ عوامی امنگوں کی نمائندہ ہے، پارلیمنٹ کسی ادارے کو اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔
قانون عرفان قادر نے کہا کہ غیرآئینی فیصلے کو بنیاد بنا کر ایک حکومت کو گرانے کی کوشش کی گئی۔ میں یہ نہیں کہہ رہا کہ چیف جسٹس کی نیت میں کوئی خلل تھا، اس فیصلے میں ٹرانسپرنسی نظر نہیں آئی۔
اس حوالے سے وزیراعظم شہباز شریف نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ 1973کا آئین جو متفقہ آئین ہے، جس کو بنانے میں پورے پاکستان کی لیڈرشپ شامل تھی، ذوالفقار بھٹو کی لیڈرشپ میں سب نے مل کر آئین بنایا، آئین پاکستان کی وحدت کی نشانی ہے، اسی آئین نے پاکستان کو پوری دنیا کے سامنے مضبوط اور متحد کر کے پیش کیا، یہی آئین پاکستان کو مضبوط کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ حاکمیت اللہ تعالیٰ کی ہے، عوام کے منتخب نمائندے جن کے تحت ایوان کو اختیار ملا ہے، ایوان اس اختیار کو مقدس جان کر استعمال کرتا ہے، ایوان، عدلیہ ، مقننہ یا انتظامیہ ہو، آئین نے تمام اداروں کے اختیارات متعین کردیے ہیں۔ وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جب تک عدالتی اصلاحات نہیں ہوتیں جمہوریت مکمل نہیں ہوگی، مرضی کا فیصلہ لینے کیلئے اداروں پر دباؤ ڈالنے پر یقین نہیں رکھتے، فل کورٹ کا مطالبہ وزیراعلیٰ کے انتخاب کیلئے نہیں ملک کے مستقبل کیلئے تھا، ہم کسی ادارے کو ایکس وائی کرکے دباؤ میں نہیں لا رہے تھے۔