باوثوق ذرائع کے مطابق گزشتہ روز قومی اسمبلی کے اجلاس سے قبل ہونے والی تین میٹنگز میں اصولی طور پر یہ فیصلہ کر لیا گیا ہے کہ تیس سے پینتیس پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کے استعفے منظور کر لئے جائیں۔ اس سلسلے میں وزیراعظم شہباز شریف کو اس بنیاد پر قائل کر لیا گیا ہے کہ اگر یہ طے ہے کہ پی ٹی آئی اور عدلیہ کے حالیہ اور ماضی کے فیصلوں کے خلاف سیاسی بیانیہ آگے بڑھانا ہے تو انتخابی میدان ہی سب سے بہتر جگہ ہے اور اس کے علاوہ یہ کہ کچھ چھوٹی سیاسی جماعتوں کے آگے پیچھے ہونے پر حکومت گرنے کا احتمال جاتا رہے گا اور عوام میں یہ تاثر زائل کرنے میں بھی مدد ملے گی کہ حکومت کہیں نہیں جا رہی بلکہ اپنے پاؤں مضبوط کر رہی ہے۔
ایک اہم پہلو یہ بھی زیر غور لایا گیا کہ ایسے لوگوں کے استعفے پہلے منظور کئے جائیں جو پی ٹی آئی کی طرف سے ہر وقت ٹی وی سکرینوں پر قبضہ کئے ہوئے ہیں تا کہ وہ اپنے حلقہ ہائے انتخاب میں مصروف ہو جائیں۔استعفوں کی منظوری میں ایسے حلقوں کی نشاندہی کر لی گئی ہے جہاں پی ٹی آئی کے منتخب اراکین بہت کم اکثریت سے کامیاب ہو سکے تھے یا اب اس حلقہ انتخاب کے معروضی حالات پی ٹی آئی کے حق میں نہیں رہے۔
استعفوں کی منظوری کی پہلی قسط میں جن پی ٹی آئی اراکین اسمبلی کے نام آنے کا امکان ہے ان میں عمران خان، قاسم سوری، اسد قیصر اور فواد حسین کے نام نمایاں ہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ ان استعفوں کی منظوری میں سب سے بڑی رکاوٹ خود شہباز شریف تھے۔
ذرائع کے مطابق ان استعفوں کی منظوری دو دنوں کے اندر ہو سکتی ہے۔ استعفوں کی منظوری میں اچانک تیزی کے عمل کی وجہ عمران خان کا بادشاہ گروں سے رابطے بحال ہونے کی خبروں کو بھی بتایا جاتا ہے۔
ادھر پی ٹی آئی کے بارے میں بھی ذرائع سے یہ خبر ہے کہ وہ انہی دو سے تین دنوں میں قومی اسمبلی کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔کے پی سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے ایک سابق اہم وفاقی وزیر نے بھی اپنے کچھ اراکین اسمبلی اور سینیٹرز کو قومی اسمبلی میں جلد واپسی اور شہباز شریف کے خلاف عدم اعتماد کا عندیہ دیا اور یہ خبر "باپ" پارٹی کے ایک سینیٹر سے حکومت تک بھی پہنچ گئی ہے۔
پی ڈی ایم اور اتحادی جماعتوں نے بھی فیصلہ کیا ہے کہ وہ اس گٹھ جوڑ اور عمران خان کی بے جا حمایت کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے اور اگر انہیں دیوار سے لگایا گیا تو اگست کے پہلے یا دوسرے ہفتے میں وہ بھی اپنا ٹرمپ کارڈ استعمال کر سکتے ہیں اور اس طرح ملک میں جاری مصنوعی بحران کا خاتمہ ہو جائے گا۔
حکومتی اتحاد کو الیکشن کمیشن کے اس اعلان سے بھی تقویت ملی ہے کہ وہ نئی حلقہ بندیوں کا اعلان 3 اگست کو کرنے جا رہا ہے۔ نئی حلقہ بندیوں کے اعلان کے بعد قانونی طور پر چار ماہ تک نئے انتخابات نہیں کروائے جا سکتے اور اب سپریم کورٹ کے پاس اتنا وقت نہیں بچا کہ وہ عمران خان کی نئی حلقہ بندیوں کو روکنے کی درخواست پر ان کے حق میں کوئی فیصلہ دے سکے کیونکہ تمام فریقین کو نوٹس کرتے اور ان کے موقف کی سماعت میں یہ تاریخ گزر سکتی ہے لیکن بعض حکومتی عہدیداروں کے مطابق سپریم کورٹ یہ تاریخ کالعدم بھی قرار دے سکتی ہے کیونکہ عمران خان کے حق میں سپریم کورٹ کے مخصوص جج حضرات فیصلہ کرتے ہوئے قانون اور آئین بھی ایک طرف رکھ دیتے ہیں