نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ابصار عالم نے سوال اٹھایا کہ کیا وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو سے کسی آرمی چیف کی بنی تھی؟ اسی طرح محمد خان جونیجو، محترمہ بینظیر بھٹو، یوسف رضا گیلانی یا شاہد خاقان عباسی سے کسی آرمی چیف کی بنی؟ عمران خان سے آرمی چیف کی بنی؟ پھر ہم کیوں صرف نواز شریف کا نام لے کر کہتے ہیں کہ ان کی کسی آرمی چیف کے ساتھ نہیں بنتی؟
پاکستان کے سسٹم پر گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آئین کے مطابق ہمارا نظام پارلیمنٹ، عدلیہ، ایگزیکٹیو اور کچھ حد تک میڈیا پر مشتمل ہے لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ اس نظام نے 75 سالوں میں ملک میں کیا کیا؟
انتظامیہ
جنرل ایوب خان 1951 میں آرمی چیف بنے اور 1968 تک ملک پر حکمرانی کرتے رہے۔ یہ بغیر کسی رکاوٹ کے 17 سال بنتے ہیں۔ اس کے بعد جنرل یحییٰ خان آئے اور 4 سال رہے۔ 1971 کے دسمبر میں جب مشرقی پاکستان الگ ہو گیا تب تک یہ سسٹم ملک کا 23 سال کا عرصہ کھا چکا تھا۔ لیکن تنقید کا نشانہ ہمیشہ سیاست دانوں کو بنایا جاتا ہے۔
اس کے بعد 11 سال تک ضیاء الحق نے حکمرانی کی۔ ضیاء دور میں اسٹیبلشمنٹ نے میاں شریف سے شہباز شریف کا نام مانگا تھا تاہم انہوں نے نواز شریف کو ضیاء اور جیلانی کی سیاسی سپردگی میں دے دیا۔ جنرل ضیاء کے بعد جنرل اسلم بیگ آئے۔ انہیں توسیع کی خواہش تھی لیکن ان کی خواہش کا علم ہوتے ہی نواز شریف نے ان کے جانے سے 3 ماہ پہلے نئے آرمی چیف کی تقرری کر دی تا کہ اسلم بیگ چلے جائیں۔ اس کے بعد جنرل کیانی نے توسیع لے کر 6 سال گزارے، پھر جنرل باجوہ نے توسیع لے کر 6 سال گزارے۔ آخری دن تک ان کی کوشش تھی کہ انہیں ایک بار پھر توسیع مل جائے۔ یہ تمام انتظامیہ کا حصہ تھے۔
سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام نے ایک بیان میں کہا کہ ہم نے فیصلہ کیا اور عمران خان کو لے کر آئے۔ جب وہ آئی ایس آئی چیف بنے تھے تو انہوں نے اپنے بھائی کو ایک کمپنی میں لگوا دیا۔ ان کے ذریعے لائسنس خریدے۔ ان کے بعد آنے والے آئی ایس آئی چیف اور ان کے بھی بعد میں آنے والے چیف نے 7 ارب روپیہ بنایا۔ کہاں گئے وہ پیسے؟ یہ وہ نظام تھا جس میں عمران خان کو لے کر آئے تھے۔ جس نے ان پر پلٹ کر وار کیا اور ان کے گھر میں گھس کے آگ لگوائی۔
پارلیمان
پارلیمان کی بات کی جائے تو اس میں بھی 'لوٹے' بنائے جاتے ہیں۔ یہ عمل اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ سیاست دانوں اور پارلیمنٹیرینز کو کام کرنے کے لیے کتنا فری ہینڈ دیا جاتا ہے۔
عدلیہ
عدلیہ کی بات کریں تو چیف جسٹس آف پاکستان نسیم حسن شاہ نے انٹرویو میں بتایا تھا کہ انہوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے لیڈر اور اس وقت کے وزیر اعظم ذوالفقار بھٹو کو پھانسی کی سزا دباؤ کے تحت سنائی تھی۔ ججوں پر دباؤ ہوتا ہے اور وہ اپنے ضمیر کے مطابق فیصلے نہیں کرتے۔ انہیں اپنی نوکریاں پیاری ہوتی ہیں۔ کوئی باضمیر جج ہوتا تو خودکشی کر لیتا مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا بلکہ آگے چل کر اپنے داماد کو سفارشی جج لگوا دیا۔ اس داماد نے بعد میں چیف جسٹس بن کر ایک اور وزیر اعظم کو نکال دیا۔
یہ ہمارے ملک کی پارلیمان، ایگزیکٹیو اور عدلیہ کا کردار ہے۔ ہمارے ملک میں جو نظام پہلے عوام نے بنایا تھا وہ جمہوری تھا۔ ہمارے آئین میں لکھا ہے کہ کسے حکومت کرنی ہے۔ اچھی کرے یا بُری، وہ عوام جانیں یا حکمران جانیں۔ ووٹر جانے اور حکمران جانے۔
چند سر پھرے جنہوں نے اپنے عزیزوں کو نوکریوں پر لگوانا ہوتا ہے وہ فیصلہ کرتے ہیں کہ عوام پر کون حکمرانی کرے گا۔ ایسا کیوں ہے؟