کوویڈ-19 کے پھیلاؤ کو روکنے کے لئے دنیا بھر کی ریاستیں لوگوں کو "گھر میں" رہنے کا حکم دے رہی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ بہت سی ریاستوں میں کئی آبادیوں کو بے دخل کئے جانے کا خطرہ لاحق ہے جبکہ دنیا بھر میں کم از کم ڈیڑھ کروڑ افراد بے گھر ہیں جو پناہ گاہوں یا فٹ پاتھوں پر رہتے ہیں۔ انہی حالات کے پیش نظر، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے نے کوویڈ۔19 کے دوران ہر طرح کی بے دخلی کی ممانعت قرار دی اور وبائی مرض کے خاتمے اور اس کے بعد معقول مدت تک کسی کو بھی اور کسی بھی جگہ سے بے دخل کرنے سے روکنے کا اعلان کیا۔
اسی طرح اقوام متحدہ کے رہائش سے متعلق ادارے نے کوویڈ-19 بحران کے دوران ہر طرح کی بے دخلی اور نقل مکانی کی روک تھام کا کہا ہے۔ کیونکہ وبائی مرض کے دوران طویل المیعاد مکینوں، خاص طور پر غیر رسمی بستیوں سے نقل مکانی اور جبری بے دخلیاں نہ صرف انسانی حقوق کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ یہ وائرس کے خطرے کو بڑھاتا ہے۔ چونکہ انخلا و بے دخلی 'گھر میں رہنے‘ کی پالیسی سے متصادم ہے، لہذا اقوام متحدہ نے تمام سطحوں پر ممبر ممالک اور حکومتوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس وقت تمام نقل مکانی اور بے دخلی کو روکیں۔
اس وقت دنیا کی شہری آبادی کا ایک چوتھائی حصہ غیر رسمی بستیوں میں رہتا ہے اور زمین کی ملکیت نہ ہونے کے سبب انہیں کسی بھی وقت ان کی رہائش سے بے دخل کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ دوسری جانب کرایہ پر رہائش رکھنے والے اپنے کرایے کی ادائیگی کے لئے جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس وبائی بیماری کے پیش نظر کسی کو گھر سے بے دخل کیا جانا ایسا ہی ہے جیسے کسی کو موت کی سزا سنانا۔
ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی کئی ریاستوں کے علاوہ دیگر کئی ممالک میں شہری حکام نے بے دخلی پر پابندی عائد کر دی ہے، جس کے تحت کرونا وائرس وبائی امراض کے دوران کسی کو بھی 'بے دخل' نہیں کیا جاسکتا ہے، حتیٰ کہ متاثرہ رہائشی کرایہ داروں کے تحفظ کے لئے بھی اصول نافذ کر دیے گئے ہیں۔ تاہم کچھ ممالک کے شہروں میں بے دخلیاں بدستور جاری ہیں۔
اس تناظر میں پاکستان میں ایسی کوئی قانون سازی نہیں ہوئی جو کوویڈ-19 بحران کے دوران تمام بے دخلیوں کو روکنے اور شہریوں کے رہائشی حق کی حفاظت کرے۔ ایسے حالات میں غیر رسمی آبادیوں کے مکین اور غیر رسمی معیشت سے وابستہ افراد سخت پریشانی کا شکار ہیں، یہ وہ کمزور اور غریب طبقہ ہے جو مقامی حکام کی جانب سے ہمہ وقت بے دخلی کے خطرہ سے دوچار رہتا ہے۔ اس ضمن میں قانون سازی و احکامات نہ ہونے کے باعث کوویڈ۔19 بحران کے وسط میں پاکستان میں غریب باشندوں اور روزگار کو زبردستی بے دخل کرنے کے چار انتہائی افسوسناک اور قابل مذمت واقعات وفاقی دارالحکومت اسلام آباد، بہاولپور، کراچی اور کوئٹہ میں پیش آئے۔
علاوہ ازیں حکام غیر رسمی بستیوں میں رہنے والے لوگوں اور غیر رسمی معیشت سے وابستہ افراد کو ہراساں کرنے میں مصروف ہیں۔ نہ صرف یہ بلکہ کراچی میں خستہ حال اور خطرناک قرار دی گئی عمارتوں کے گردونواح کی عمارتوں کے رہائشیوں کو حکام بے دخلی کے نام پر ڈرا دھمکا رہے ہیں، ساتھ ہی مسئلہ حل کرنے کے لئے رہائشیوں سے رشوت طلب کی جارہی ہے۔
16 اپریل 2020 کی صبح اسلام آباد، سیکٹر جی میں دارالحکومت کی انتظامیہ نے کئی جھونپڑیوں کو کرونا وائرس کے بحران اور لاک ڈاؤن کے دوران مسمار کر کے یومیہ اجرت پر کام کرنے والے مزدوروں کے 75 خاندانوں کو بے گھر کر دیا تھا۔ اسی طرح 27 مئی 2020 کو ضلع بہاولپور کے شہر یزمان میں مقامی حکام نے چک 52 / DB میں ہندو برادری کے 25 مکانات مسمار کر دیے۔ بات یہیں تک محدود نہ رہی بلکہ 16 جون 2020 کو کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے محکمہ انسداد تجاوزات نے کراچی کے علاقے صدر میں ایمپریس مارکیٹ اور اس کے آس پاس تجاوزات کے خلاف آپریشن کے نام پر کئی پتھارے، ٹھیلے، کیبن، پھلوں اور سبزیوں کے سٹال ضبط کر لیے۔
تازہ ترین واقعہ 21 جون 2020 کو کوئٹہ میں پیش آیا، جس میں ضلعی انتظامیہ کوئٹہ نے، ڈپٹی کمشنر کوئٹہ کے حکم پر کاسی روڈ، مسجد روڈ اور نمکو گلی میں انسداد تجاوزات مہم کے نام پر 400 سے زائد دکانوں کو مسمار کر دیا۔ مسماری و جبری بے دخلی کے ان واقعات میں کسی بھی مجاز ادارے نے متاثرین کو پہلے سے زبانی یا تحریری طور پر مطلع نہیں کیا تھا اور نہ ہی بعد میں انھیں کھانا، عارضی پناہ گاہ، پانی تک رسائی اور صفائی ستھرائی یا کسی بھی طرح کا معاوضہ فراہم کرنے کے لئے کوئی اقدام اٹھایا۔
جبکہ شہر کراچی میں سرکلر ریلوے ٹریک سے ملحقہ آبادی قائداعظم کالونی میں پہلے ہی سیکڑوں افراد 'بے گھر' ہیں اور انہیں فوری مدد کی ضرورت ہے۔ ان کے مکانات کو مسمار ہوئے ایک سال گزر گیا مگر سپریم کورٹ کی واضح ہدایت کے قطع نظر، حکومت کے کسی بھی ادارے نے ان کو دوبارہ آباد کرنے کے لئے بات نہیں کی۔ جبکہ مستقبل قریب میں مون سون کی موسلا دھار بارشوں کا واضح امکان ہے اور مذکورہ آبادی میں کئی خاندان اپنے مکانات کے ملبے پر کھلے آسمان تلے رہ رہے ہیں۔ گذشتہ سردیوں کے موسم میں سخت سردی اور بارش میں بھی قائداعظم کالونی کراچی کے متاثرہ خاندانوں کو کوئی پناہ گاہ فراہم نہیں کی گئی تھی۔
ایسے حالات میں وزیر اعظم عمران خان اور صوبائی حکام پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی مزید سوچی سمجھی بے دخلی کو روکیں اور بے دخل افراد کو فوری طور پر امداد فراہم کریں۔ ان کی رہائش، خوراک، پانی اور صفائی ستھرائی کے حقوق کی ضمانت دیں۔ ساتھ ہی حکومت کو رہائشی ضروریات کا طویل مدتی حل تلاش کرنے کے لئے 'بے دخل افراد' کی مکمل شرکت کے ساتھ ایک منصوبہ بھی مرتب کرنا چاہیے۔ کوویڈ-19بحران کے درمیان جبری بے دخلی و مسماری غیر انسانی فعل اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی ہے، لہذا حکومت پاکستان جبری بے دخلی اور مسماری پر مکمل پابندی کے حوالے سے قانون سازی کرے اور اس کا فوری نفاذ کیا جائے۔