بیگم خورشید شاہد ۔۔۔ ایک دور جو تمام ہوا

بیگم خورشید شاہد ۔۔۔ ایک دور جو تمام ہوا
اگر کسی نے 80کی دہائی میں پی ٹی وی کا طویل دورانیہ کا کھیل ’ فہمیدہ کی کہانی استانی راحت کی زبانی‘  دیکھا ہے تو وہ بلاشبہ خورشید شاہد کی اداکاری کا گرویدہ ہوگا۔ اشفاق احمد کے لکھے  اور محمد نثار حسین کی ڈائریکشن میں تیار  اس ڈرامے میں طبقاتی تفریق کی بھرپور عکاسی کی گئی۔ ڈرامے کے ایک ایک منظر میں امیر و غریب کی طرز زندگی کو بہترین انداز میں پیش کیا گیا۔ جبھی  احساس محرومی اور کمتری کا نشتر فہمیدہ کو اس طرح ڈستا ہے کہ وہ زندگی کی بازی ہی ہار جاتی ہے۔ فائزہ حسن کی فنکاری جہاں عروج پر رہی۔ وہیں استانی راحت کے روپ میں خورشید شاہد نے بے بس، لاچار اورمفلسی سے بھرا یہ کردار ڈوب کر ادا کیا۔

خورشید شاہد نے کلائمکس میں رنجیدہ  اور غمگین انداز میں مکالمات کی ادائیگی کی،   اپنی بیٹی کی موت کا ذمے دار نمود و نمائش اور امیروں کی شان و شان کو قرار دیتے ہوئے متاثر کن  مکالمات  ہر ذہن پر ہتھوڑا بن کر برسے۔  درحقیقت  ’فہمیدہ کی کہانی استانی راحت کی زبانی‘ نے  ناظرین کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا ۔  اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ خورشید شاہد کی غیرمعمولی فطری اداکاری نے اس ڈرامے کو آج تک مثال بنا رکھا ہے۔

https://www.youtube.com/watch?v=_14WUgV4Q7A

بیگم خورشید شاہد کے کیرئیر پر نگاہ ڈالی جائے تو انہوں نے بطور گلوکار فنی سفر کا آغاز کیا۔ دہلی میں جنم لینے والی خورشید شاہد کی دو بہنیں بھی گلوکاری اور اداکاری میں خاص شغف رکھتی تھیں۔ والد محکمہ پوسٹ میں تھے لیکن ان کی جانب سے بیٹیوں پر کسی قسم کی کوئی پابندی نہیں تھی۔ خورشید شاہد کے مطابق بچپن میں گھر کے پاس ’ رام لیلا‘   لگتی تو وہ خاص طور پر بہنوں کے ساتھ اس کا نظارہ کرنے جاتیں۔ جہاں وہ اسٹیج پر آئے فنکاروں کے مکالمات کی ادائیگی، رقص اور گلوکاری کے ساتھ ساتھ  ان کے زرق برق لباس کو بغور دیکھتیں۔ گھر آکر بہنوں کے ساتھ ’رام لیلا‘ کا اسٹیج لگایا جاتا ۔

اسکول کے زمانے میں جب نئے ٹیلنٹ کی تلاش میں ان کا انتخاب ہوا تو خوشی کا ٹھکانہ نہیں تھا۔ صرف 9برس کی تھیں تو آل انڈیا ریڈیو پر موسیقار فیروز نظامی نے انہیں ایک نظم کی دھن اور گلوکاری کا موقع دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ خورشید شاہد نے اس نظم کی دھن ایسی تیار کی فیروز نظامی دنگ رہ گئے۔ ساتھ ہی انہیں خورشید شاہد کی گلوکاری بھی بھا گئی۔ جس کے بعد خورشید شاہد باقاعدہ آل انڈیا ریڈیو کا حصہ بن گئیں۔ وہ کہتی تھیں کہ موسیقار روشن نے ان کی گلوکاری کی خامیوں کو دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ چونکہ اس زمانے میں ٹیلی ویژن نہیں آیا تھا، اسی لیے آل انڈیا ریڈیو پر ہونے والے مختلف ڈراموں میں بھی وہ اپنی فن کی صلاحتیں دکھانے لگیں۔ یوں ریڈیو ہی ان کی پہلی تربیت گاہ بن گیا ۔   



قیام پاکستان کے بعد جب ان کا چھوٹا ساگھرانہ دہلی سے لاہور منتقل ہوا تو یہاں آکر بھی ان کا یہ سفر جاری رہا۔ گلوکاری میں جو کمی رہ گئی تھیں وہ مختلف منجھے ہوئے موسیقاروں نے دور کرنے کی کوشش کی۔ یہاں تک کہ روشن آرا بیگم بھی خورشید شاہد کی گلوکاری کی مداح تھیں، جنہوں نے گلوکاری کی باریکیوں کی اونچ نیچ میں اور نکھار لانے میں اہم کردار ادا کیا۔  بیگم خورشید شاہد کو تو یہ بھی اعزاز حاصل رہا کہ  انہیں شہنشاہ غزل مہدی حسن اور اقبال بانو کے ساتھ ایک کنسرٹ میں گلوکاری کا موقع ملا۔  جہاں وہ گلوکاری میں نام کما رہی تھیں، وہیں انہوں نے اداکاری سے ناطہ نہیں توڑا۔ لاہور آرٹس کونسل میں ہونے والے مختلف اسٹیج ڈراموں میں پرفارم کرتی رہتیں۔  جو نامی گرامی ڈراما نگار کے لکھے ہوتے ۔  ٹی وی کا قیام ہوا تو اسلم اظہر نے جب انہیں ڈراموں میں کام کرنے کی پیش کش کی تو ان کا یہی مطالبہ تھا کہ انہیں دیگر اداکاروں سے زیادہ معاوضہ دیا جائے۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ وہ سمجھتی تھیں کہ ان کا فنی کیرئیر دو دہائی سے زیادہ ہے، ا س اعتبار سے وہ تجربے کی بنیاد پر زیادہ معاوضے کی حقدار ہیں۔



خورشید شاہد نے ٹی وی کے پہلے اپنے ڈرامے ’رس ملائی‘ میں اداکاری کے جوہر دکھائے تو ہر کوئی ان کا دیوانہ ہوگیا۔ جس کے بعد ڈراموں کا ایک طویل سفر شروع ہوا۔ جن میں سمندر، ساحل، من چلے کا سودا، لازوال  اور وادی پرخار نمایاں ہیں۔ جبکہ پی ٹی وی کے طویل دورانیے کے بیشتر ڈراموں میں خورشید شاہد نے دل کو چھو لینے والی اداکاری دکھائی۔ وہ اس بات کا اعتراف کرتیں کہ پاکستان آکر انہوں نے گلوکاری سے زیادہ اداکاری پر توجہ دی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی رہی کہ انہیں خود اس فن میں زیادہ مزا آیا، انہیں اس بات کا ملال رہا کہ وہ بڑی  کلاسیکل گلوکارہ نہ بن سکیں۔

بات کی جائے خورشد شاہد کے کرداروں کی تو ان  میں شائستگی، بردباری اور وقار کا عنصر نمایاں رہا۔ وہیں وہ جملوں کی ادائیگی میں تاثرات اور جذبات کا بھرپور سہارہ لیتیں۔ نجی زندگی میں بھی وہ خاصی رکھ رکھاؤ والی خاتون تصور کی جاتیں۔ جن کے انداز میں سنجیدگی  ، شائستگی اور وقار  کی جھلک گفتگو میں رہتی ۔

ٹی وی ڈراموں کے ساتھ ساتھ انہوں نے فلموں میں بھی قسمت آزمائی، 1964میں فلم ’چنگاری‘   میں کام کیا  جبکہ  1968میں ادیب اور ڈراما نگار  اشفاق احمد کی ڈائریکشن میں بننے والی ’دھوپ اور سائے‘ میں بھی وہ نظرآئیں۔۔ یہ وہی فلم ہے، جس کی سرمایہ کاری حاکم علی زرداری نے کی تھی ۔ 1995میں ان کی فنی خدمات کے اعتراف میں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا گیا۔ جبکہ ڈراموں میں جب گلیمر نے جگہ لینا شروع کی تو کوئی ڈیڑھ دہائی قبل وہ فنی دنیا سے کنارہ کشی اختیار کرنے پر مجبور ہوئیں۔ خورشید شاہد کے زندگی کا ایک تلخ پہلو یہ بھی ہے کہ شادی کے کچھ برس  بعد ان کے شوہر وطن چھوڑ گئے اور تبھی انہوں نے تن تنہا بیٹے سلمان شاہد کی ماں اور باپ بن کر پرورش کی۔ جو والدہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فن اداکاری سے ہی وابستہ ہوئے۔