ہم وزیراعلٰی پنجاب کا الیکشن دوبارہ کرانے کا سوچ رہے ہیں:لاہور ہائیکورٹ

ہم وزیراعلٰی پنجاب کا الیکشن دوبارہ کرانے کا سوچ رہے ہیں:لاہور ہائیکورٹ
لاہور ہائیکورٹ نے حمزہ شہباز شریف کو وزارت اعلیٰ سے ہٹانے کے کیس میں ریمارکس دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم دوبارہ انتخابات کرانے کا سوچ رہے ہیں۔

کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے وکیل نے استدعا کی کہ حمزہ شہباز شریف کو عہدے سے ہٹا کر ہمیں الیکشن کیلئے کم از کم 10 دن کا وقت دیا جائے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کا اس موقع پر کہنا تھا کہ ہمیں الیکشن پر کوئی اختلاف نہیں ہے۔ حمزہ شہباز سے مشاورت کیلئے ایک دن کی مہلت دی جائے۔

لاہور ہائیکورٹ کے معزز جج جسٹس شاہد جمیل کا کیس کی سماعت کے موقع پر ریمارکس دیتے ہوئے کہنا تھا کہ اگر وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے کیلئے الیکشن کا دوبارہ انعقاد ہوا تو 5 نئے ارکان ووٹ نہیں دے سکتے۔

اس موقع پر پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ منحرف ارکان کے 25 ووٹ شامل نہ ہوں تو حمزہ شہباز وزیراعلیٰ نہیں رہتے۔ اس لئے ان کو پہلے عہدے سے ہٹایا جائے اور پھر انتخاب کروایا جائے۔

جسٹس طارق سلیم شیخ کا کہنا تھا کہ اگر پرانی صورتحال واپس ہوتی ہے تو اس وقت وزیراعلیٰ عثمان بزدار تھے۔ اگر پچھلی تاریخ سے دوبارہ الیکشن ہوئے تو اس میں نئے ووٹ کیسے شامل ہوں گے؟ جب الیکشن ہوا تھا تو اس وقت مخصوص 5 ارکان تو نہیں تھے۔ اس پر جسٹس صداقت علی خان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کسی کو ڈی نوٹیفائی کرنے کا نہیں بلکہ منحرف ارکان کے ووٹ کو شمار نہ کرنے کا کہا ہے۔

جسٹس شاہد جمیل نے کیس کی سماعت کے موقع ہر ریمارکس دیئے کہ نئے آنے والے 5 ارکان 16 اپریل کی تاریخ میں تو ووٹ نہیں دے سکتے۔ وزیراعلیٰ کا نوٹیفکیشن ٹھیک تھا یا نہیں، اس کا تعین یہ لاء ڈویژن کا کام ہے۔

تاہم تحریک انصاف کے وکیل علی ظفر نے عدالت کے روبرو درخواست کی کہ عدالت اس مقدمے میں اتنی جلد بازی نہ کرے، نئے اراکین ووٹ کر سکیں گے کیونکہ الیکشن تو 16 اپریل کو نہیں ہو رہا۔ اس پر عدالت کا کہنا تھا کہ اگر 16 تاریخ پر ریورس کرکے دوبارہ الیکشن ہوتا ہے اور ایک فریق اکثریت حاصل کرلے تو دوسرا فریق عدم اعتماد کر سکتا ہے۔

وکیل علی ظفر نے اس پر کہا کہ وزارت اعلیٰ کے امیدوار وہی ہوں گے لیکن ووٹرز نئے ہوں گے۔ منحرف 25 ارکان آج ڈی سیٹ ہو چکے ہیں۔ ہم 16 تاریخ پر واپس جا نہیں سکتے۔

جسٹس طارق سلیم نے پی ٹی آئی کے وکیل سے استفسار کیا کہ کیا یہ تضاد نہیں کہ امیدوار پرانے اور ووٹرز نئے ہوں؟ اس کا جواب دیتے ہوئے علی ظفر کا کہنا تھا کہ اس سارے وقت میں جو کچھ ہوا، اس کا کیا کریں گے؟ عدلیہ نے کہا کہ یہ عدالت پر چھوڑ دیں۔ اسے ہم قانونی کر سکتے ہیں، اس پر علی ظفر کا کہنا تھا کہ آپ کو اس پر وقت دینا ہی ہوگا۔ بعد ازاں درخواستوں پر سماعت کل صبح 10 بجے تک ملتوی کر دی گئی۔