جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سپریم کورٹ میں دیوار کیساتھ لگایا جا چکا ہے

05:30 PM, 28 Jun, 2022

نیا دور
صحافی اسد علی طور نے کہا ہے کہ اب یہ بات کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سپریم کورٹ میں دیوار کیساتھ لگایا جا چکا ہے۔ ان کو اہم بنچز میں بھی نہیں بٹھایا جاتا۔ ان کو تین کی بجائے دو رکنی بینچ دیا جاتا ہے تاکہ وہ فیصلہ دینے کیلئے دوسرے جج کے محتاج رہیں۔

نیا دور ٹی وی کے پروگرام ''خبر سے آگے'' میں گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اب یوں لگ رہا ہے کہ بنچز کے علاوہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو جوڈیشل کمیشن میں بھی سائیڈ لائن کیا جا رہا ہے اور کوشش کی جا رہی ہے وہ جوڈیشل کمیشن کا بھی حصہ نہ ہوں لیکن آئینی طور پر تو وہ انہیں جوڈیشل کمیشن سے نکال نہیں سکتے۔

اسد علی طور کا کہنا تھا کہ ہمیں تو ابھی بھی لگتا ہے کہ فیض یابی کا عمل کہیں نہ کہیں جاری ہے۔ جو فیض یاب لوگ ہیں وہ ایک جگہ بیٹھے نظر آتے ہیں اور جو فیض یاب نہیں ہیں وہ کہیں اور بیٹھے نظر آتے ہیں اور کوشش کی جاتی ہے کہ جو فیض یاب نہیں ہیں ان کو ابھی بھی سائیڈ لائن رکھا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس دائر کرنے والے سابق وزیراعظم عمران خان صاحب اس بات کو تسلیم کر چکے ہیں کہ میں نے غلط ریفرنس دائر کیا تھا۔

پروگرام میں شریک مہمان ڈاکٹر اقدس افضل نے ملک کی معاشی صورتحال پر اپنا تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ آئی ایم ایف کیساتھ مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں اور سننے میں آ رہا ہے کہ اب ایک کی بجائے دو ارب ڈالر ملیں گے۔ میں سجمھتا ہوں پاکستان کی معیشت 2 مہینے پہلے پھنسی ہوئی نظر آ رہی تھی۔ لیکن اب اس صورتحال سے نکل آئی ہے۔

ڈاکٹر اقدس افضل کا کہنا تھا کہ معیشت میں استحکام آتا نظر آ رہا ہے۔ اب سری لنکا والے خطرات نظر نہیں آ رہے۔ پاکستان کی معیشت کا سب سے بڑا مسئلہ کرنٹ اکائونٹ خسارہ اور مہنگائی ہے۔ اب پھر تیل کی قیمت میں عالمی سطح پر اضافہ ہوتا نظر آ رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ معیشت میں اس وقت ہمیں استحکام تو آتا نظر آ رہا ہے، مگر ابھی بھی بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔ اکنامک ایڈوائزری کمیٹی میں بہت سے نئے چہرے نظر آئے جو کہ خوش آئند ہے، کراچی کی اچھی نمائندگی ہے۔

تنزیلہ مظہر کا کہنا تھا کہ آئین میں یہ صاف صاف لکھا ہوا ہے کہ جو آپ کا اسمبلی میں تناسب ہے، اس حساب سے پارٹیوں کو مخصوص نشستیں ملتی ہیں۔ جن سیٹوں کے اوپر نمائندے نہیں ہیں، اس پر کسی بھی جماعت کا دعوی مضحکہ خیز لگتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ جس ادارے نے انصاف فراہم کرنا ہے اگر اس ادارے میں ہی سینئر جج کیساتھ انصاف نہ ہو رہا ہوگا تو پھر ایسے انصاف کے نظام کے اوپر سوال اٹھیں گے۔ پھر بے شک آپ صحافیوں کو توہین عدالت بھیجتے رہیں۔ آئین میں ان چیزوں کی تشریح کر رہے جس کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
مزیدخبریں