سماجی قطبیت اور سیاسی تقسیم پیدا کرنے میں نیوز چینلز کا کتنا ہاتھ ہے؟

ان نیوز چینلز کے بہت سے نیوز اینکرز کے اپنے یوٹیوب چینلز ہیں۔ تاہم، یہ افراد سیاسی وابستگیوں سے مبرا نہیں ہیں۔ نتیجتاً، وہ اکثر غیر جانبدارانہ سیاسی تجزیہ پیش کرنے کے بجائے اپنے سامعین کی سیاسی خواہشات کو پورا کرتے نظر آتے ہیں۔

03:09 PM, 28 Jun, 2024

ڈاکٹر حسن ظفر

پاکستانی نیوز چینلز پر بات کرتے وقت ان کے معیار، آزادی، رائے کی تشکیل اور سامعین کے سماجی اور سیاسی انتخاب پر ان کے اثرات کے بارے میں متعدد سوالات اٹھتے ہیں۔

جنرل پرویز مشرف نے پیمرا آرڈیننس 2002 کے تحت نجی آپریٹرز کو ٹی وی چینلز کے لائسنس دیے جس سے ایک اہم تبدیلی کا آغاز ہوا۔ سب سے پہلے اے آر وائی نیوز وجود میں آیا، جس کی ملکیت سونے کے تاجر عبدالرزاق یعقوب کے پاس تھی۔ یہ پاکستان کے نیوز میڈیا کے کسی کاروباری گروپ کے کنٹرول میں ہونے کا پہلا واقعہ تھا۔ اس کے بعد جنگ میڈیا گروپ کا جیو نیوز شروع ہوا، جس کی پرنٹ صحافت کی تاریخ 1947 میں پاکستان کے قیام کے بعد سے ہے۔ اس کے بعد متعدد نجی نیوز اور انٹرٹینمنٹ چینلز سامنے آئے۔ اس سے قبل رات 9 بجے پی ٹی وی خبرنامہ پاکستانی عوام کے لیے ٹی وی پہ خبروں کا واحد ذریعہ تھا۔ نجی چینلز نے نیوز بلیٹن اور کرنٹ افیئرز شوز میں نئے چہروں کو متعارف کرایا، جس سے پاکستانی سکرینوں پر ایک جہت آئی جو اکثر پی ٹی وی نیوز کاسٹروں اور پروگرام میزبانوں کی پریزنٹیشنز کے مقابلے میں زیادہ گلیمرس اور ڈرامائی ثابت ہوئی۔ بظاہر یہ ایک خوش آئند تبدیلی تھی۔ اگرچہ اس سے نیوز میڈیا کو زیادہ آزادی اور مضبوط رپورٹنگ کا تجربہ ہوا، لیکن ساتھ ہی اس نے صحافتی ذمہ داری سے متعلق بہت سے سوالات کو جنم دیا۔

ان پیش رفتوں کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے میں نے اپنے یوٹیوب چینل کے پروگرام 'ٹاکنگ پالیٹیکس' میں فیصل شیر جان کا انٹرویو کیا جو اپنے قیام سے ہی نجی چینلز سے وابستہ ایک ممتاز میڈیا ایگزیکٹو تھے۔ ان کے مطابق چینلز کی 24/7 نشریات نے توقعات میں اضافہ کیا اور مسائل بھی پیدا کیے۔ کیونکہ یہ چینل اپنے سیاسی جھکاؤ اور مفادات کی وجہ سے کچھ نقطہ نظر پر سختی سے کاربند تھے۔ انہوں نے سماجی قطبیت پیدا کی۔ چنانچہ سیاسی میدان میں بڑھتی ہوئی قطبیت کی عکاسی ان چینلز میں بھی دکھائی دی۔ کوئی دلیل دے سکتا ہے کہ یہ عکاسی ایک دو طرفہ عمل ہے۔ شیر جان نے پیمرا آرڈیننس میں ایک اہم خامی کی نشاندہی بھی کی، جس کے تحت نیوز چینلز پر اشتہارات کی اجازت دی گئی تھی، اس طرح خبر تخلیق کرنے کے عمل میں اشتہار دہندگان کو شامل کر لیا گیا۔ اس کا نتیجہ واضح تھا – سنسنی خیز پریزنٹیشنز اور چلاتی ہوئی بریکنگ نیوز۔

ناظرین کو راغب کرنے کی ضرورت پہ چلنے والے یہ چینلز بہرطور ایجنڈے پر مبنی تھے۔ جب اشتہار دہندگان کا پیسہ استعمال کیا جاتا ہے تو غیر جانبدار نیوز چینل چلانے کے لئے درکار آزادی پر سمجھوتہ کیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے معروف آزاد نیوز چینلز، جیسے بی بی سی، سی این این، ٹی آر ٹی، اور چینل  ، اشتہارات کے بجائے سبسکرپشن پر کام کرتے ہیں، آزاد ادارتی پالیسیوں اور اعلیٰ معیار کو یقینی بناتے ہیں۔ اس کے برعکس پاکستان میں کیبل سروسز کی ادائیگیاں کیبل آپریٹرز کو جاتی ہیں نا کہ نیوز چینلز کو، جس سے نمایاں فرق پڑتا ہے۔

ایک اور مسئلہ پیمرا آرڈیننس کی مسلسل خلاف ورزیوں سے پیدا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، قانون ایئر ٹائم کے فی گھنٹہ صرف 12 منٹ اشتہارات کی اجازت دیتا ہے، پھر بھی زیادہ تر چینلز مصروف ترین اوقات (شام 7 سے 11 بجے) کے دوران اشتہارات کے لئے 18 سے 24 منٹ مختص کرتے ہیں۔ نتیجتاً، خبریں سنسنی خیزی اور گلیمر کے ذریعے ناظرین کو اپنی طرف متوجہ کرنے اور پیسے کمانے کا ذریعہ بن گئی ہیں اور اس عمل سے ٹیلی ویژن صحافت کے معیار اور شفافیت پر سمجھوتہ کرتی ہیں۔ شیر جان کے مطابق، 'سامعین فطری طور پر موجود نہیں ہوتے، انہیں تعمیر کیا جاتا ہے'۔ ناظرین کے تعاقب میں پاکستانی نیوز چینلز اکثر رپورٹنگ اور خبریں جمع کرنے کے اخلاقی اصولوں پر سمجھوتہ کرنے کے ساتھ زبان کے خراب معیار اور قابلیت سے پردہ پوشی کرتے اور لوگوں کی نجی زندگیوں پر حملہ کرتے بھی نظر آتے ہیں۔

ٹیلی ویژن چینلوں کے تیزی سے بڑھنے کے ساتھ، تربیت یافتہ افراد کی بھی نمایاں کمی تھی، جس میں نیوز پریزینٹرز، پروڈیوسرز، ادارتی اور تکنیکی عملہ شامل تھا۔ جیو نیوز انٹرنیشنل کے سربراہ فیصل شیر جان نے ان چینلز کے لیے بھرتیوں کا اپنا تجربہ شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ شروع میں پی ٹی وی سے ریٹائرڈ ہونے والے بہت سے افراد نے ان چینلز میں سینیئر عہدوں پر شمولیت اختیار کی۔ ان کے ساتھ ساتھ ایسے افراد بھی شامل ہوئے جن کے پاس ٹیلی ویژن کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔ ان نئے آنے والوں نے غیر ملکی نیوز چینل کے اہلکاروں سے تربیت حاصل کی۔ تاہم، جب انہوں نے ان چینلوں میں کام کرنا شروع کیا تو اس تربیت کا اثر جلد زائل ہو گیا۔ انہوں نے کسی بھی طریقے سے سامعین کو راغب کرنے کے لئے مختلف ہتھکنڈوں کا سہارا لیا۔

یہ رجحان اس وقت شدت اختیار کر گیا جب کاروباری افراد نے نیوز چینلز کے لائسنس حاصل کیے۔ ان میں تاجر، پراپرٹی ڈیلر اور یونیورسٹیوں کے مالکان شامل تھے، جو اب نیوز چینلز کے سی ای اوز بن چکے تھے۔ ان کے دو واضح مقاصد تھے؛ خبروں سے فائدہ اٹھانا اور ان چینلز کو اپنے دوسرے کاروباروں کو فروغ دینے کے لئے سیاسی اور سماجی میدانوں میں اثر و رسوخ بڑھانے کے لئے استعمال کرنا۔ ان میں رئیل سٹیٹ مالکان نے بنیادی طور پر نیوز چینلوں کی نوعیت اور مقاصد کو یکسر تبدیل کر دیا۔ چینلز کی ادارتی پالیسی کی رہنمائی کرنے والی ابتدائی سیاسی قطبیت ایک مختلف دائرے میں منتقل ہو گئی۔ ان چینلوں کا ایک ہی مقصد تھا؛ نیوز کے ذریعے کاروباری مفادات کا تحفظ۔۔

اس موقع پر سوشل میڈیا نے ٹیلی ویژن چینلز کے غلبے کو چیلنج کرنا شروع کر دیا۔ 4 جی سسٹم کی آمد اور 2015 کے بعد سمارٹ فونز کی وسیع پیمانے پر دستیابی نے میڈیا کے منظرنامے کو نمایاں طور پر تبدیل کر دیا۔ نیوز چینلوں کو ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے جو طاقت حاصل تھی وہ آہستہ آہستہ زوال پذیر ہونے لگی۔ جوں جوں سمارٹ فونز کا معیار اور مقدار بڑھتی گئی، سوشل میڈیا کا اثر و رسوخ بڑھتا گیا۔ 2023 تک، اعداد وشمار سے پتہ چلتا ہے کہ اشتہارات کی آمدنی کا تقریبا 55 فیصد سوشل میڈیا پر منتقل ہو گیا تھا۔ یعنی جس طرح ٹیلی ویژن نے 2002 کے بعد کے دور میں پرنٹ میڈیا کو متاثر کیا تھا، اسی طرح ڈیجیٹل اور سوشل میڈیا نے ٹیلی ویژن کو بھی متاثر کرنا شروع کر دیا۔

تازہ ترین خبروں، تجزیوں اور رپورٹس کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں

اب ان چینلز کے بہت سے نیوز اینکرز کے اپنے یوٹیوب چینلز ہیں۔ یہ ان کی اپنے سامعین کے ساتھ انفرادی مقبولیت کی بنیاد پر اچھی آمدنی کا ذریعہ ہیں۔ تاہم، یہ افراد سیاسی وابستگیوں سے مبرا نہیں ہیں۔ نتیجتاً، وہ اکثر غیر جانبدارانہ سیاسی تجزیہ پیش کرنے کے بجائے اپنے سامعین کی سیاسی خواہشات کو پورا کرتے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے یہ بات اپنے ٹیلی ویژن کی نوکریوں میں سیکھی۔ دوسری جانب ٹیلی ویژن چینلز مختلف ذرائع سے اشتہارات اور فنڈنگ پر زندہ رہتے ہیں جو ان کے اثر و رسوخ سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اگر وہ حکومت کے حامی ہیں تو انہیں 200 سے زیادہ سرکاری اداروں سے اشتہارات ملتے ہیں، وہ ادارے جن کو مستقل نقصان کا سامنا ہے۔ بدلے میں، یہ چینل ان کی نجکاری کی حمایت نہیں کرتے۔ دوسرے کیمپ میں جو لوگ حزب اختلاف کی حمایت کرتے ہیں، ان کے ناظرین کی تعداد زیادہ ہونے کا امکان ہے، جس سے زیادہ اشتہار دہندگان کو راغب کیا جا سکتا ہے۔ یہ کوئی راز نہیں ہیں۔ میں یہ صرف اس نکتے کو اجاگر کرنے کے لئے لکھ رہا ہوں کہ یہ نیوز چینل کسی بھی طرح سے آزاد نہیں ہیں۔ وہ یا تو حکومت کے حامی ہیں یا اشتہار دینے والوں کے زیر اثر۔

فیصل شیر جان نے مجھے بتایا کہ خبریں نشر کرنے والے بہت سے چینلز کے پاس نیوز چینل کا لائسنس نہیں ہے۔ ان کے لائسنس تعلیم، رئیل سٹیٹ، یا صرف تفریحی مقاصد کے لئے ہیں۔ تاہم پیمرا اس وقت تک آنکھیں بند کیے رکھتا ہے جب تک یہ چینلز حکومت کی حمایت کرتے ہیں اور اپنے نیوز پروگراموں میں اپوزیشن کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ مگر جب حساب کتاب کا دن آئے گا، تو ان میں سے زیادہ تر چینلوں کو بند کرنا پڑے گا۔ اور کچھ کو قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مصروف اوقات کے دوران حد سے زیادہ اشتہاری وقت مختص کرنے پر بھاری جرمانے ادا کرنا ہوں گے۔ اس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں ملازمین بے روزگار ہو جائیں گے۔ ان میں سے زیادہ تر ٹیلی ویژن چینلز کو سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا سے مسابقت کے ساتھ ساتھ سکرین پر اپنی ناقص کارکردگی کی وجہ سے پہلے ہی شدید مالی مشکلات کا سامنا ہے۔ بہت سے چینل بند ہو گئے ہیں یا اپنی نشریات کو نمایاں طور پر کم کر چکے ہیں۔ پریس کلبوں میں بلا معاوضہ اور کم تنخواہ پر کام کرنے والے اینکرز اور پروڈکشن عملے کی کہانیاں زباں زد عام ہیں۔

2002 کے بعد سے ٹیلی ویژن چینلوں کی ترقی کے ساتھ پاکستان میں تقریباً تمام یونیورسٹیوں نے اپنے ماس کمیونیکیشن کے شعبوں میں خصوصی ڈگریاں متعارف کروائیں۔ یہ کاروبار ایک دہائی سے زیادہ عرصے تک پھلتا پھولتا رہا، جس سے چینلز اور یونیورسٹیوں دونوں کو فائدہ ہوا۔ البتہ جیسے جیسے سوشل اور ڈیجیٹل میڈیا کا اثر و رسوخ بڑھنا شروع ہوا ہے، ان ڈگریوں میں داخلہ لینے والے طالب علموں اور چینلوں پہ پہلے سے کام کرنے والوں کے لیے صورت حال مایوس کن دکھائی دیتی ہے۔ ان میں سے اکثر لوگوں کو پہلے ہی بہت کم ادائیگی ملتی ہے، اور بعضوں کو تو کچھ بھی نہیں ملتا۔ اس میں بہتری کا امکان بھی نہیں ہے۔ تاہم، ہمیں اس تشویش کو یونیورسٹی انتظامیہ اور ان افراد پر چھوڑنا چاہیے جو اب بھی ان ڈگریوں کو حاصل کرنے کا انتخاب کر رہے ہیں۔

2005 سے 2010 تک سرکاری اور نجی شعبے کی یونیورسٹیوں میں کام کرنے کا میرا ذاتی تجربہ مایوس کن تھا۔ زیادہ تر طالب علموں کے پاس کسی بھی میڈیا کیریئر کے لئے ایک بنیادی ضرورت کا فقدان تھا؛ اچھی اردو لکھنے بولنے کی صلاحیت۔ بہت سے خواہشمند نیوز اینکرز کا اردو لہجہ خراب تھا جس کی وجہ سے وہ نشریات کے لیے نامناسب تھے۔ تاہم، ان میں سے بہت سے ان چینلوں میں آن سکرین اور آف سکرین نوکریاں حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ واضح طور پر، معیاراور قابلیت ان چینلوں کے لئے ترجیح نہیں تھے۔ انہیں معیار سے قطع نظر، سلاٹ بھرنے کیلئے اہلکاروں کی ضرورت تھی۔

نتائج سکرینوں پر واضح ہیں۔

اس منظرنامے کا مشاہدہ کرنے پہ ایک بات یقینی ہے کہ ٹیلی ویژن میڈیا نے اپنے عروج کے دن گزار لیے ہیں۔ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ مکمل طور پر ختم ہو جائیں گے۔ جو تبدیلی کو اپنائیں گے وہ زندہ رہیں گے۔ اشارے ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ بہت سے چینلز نے اب یوٹیوب اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اپنے پوڈ کاسٹ شروع کر رکھے ہیں۔ یعنی وہ تبدیلی کو گلے لگا رہے ہیں – ایک ایسی تبدیلی جس کی پیش گوئی فیصل شیر جان نے اس وقت کی تھی جب انہیں جیو ٹی وی نیٹ ورک کے سی ای او میر شکیل الرحمٰن نے فون کیا اور انہیں اپنے میڈیا گروپ میں شامل ہونے کی دعوت دی تھی۔

ان چینلز کا مستقبل جو بھی ہو، یہ بحث ہمیں ایک بنیادی سوال کے ساتھ جوڑتی ہے؛ عوام تک معلومات پہنچانے میں ان کے کردار کے باوجود انہوں نے ملک میں سیاسی تقسیم اور عدم استحکام میں کتنا حصہ ڈالا ہے؟ کیا انہوں نے قومی تانے بانے کو نقصان پہنچانے میں کردار ادا کیا ہے؟ قوم کو ان چینلز سے کس طرح کا فائدہ ہوا ہے؟ اگر ترازو کے پلڑے میں ان سوالات کے جوابات منفی میں زیادہ ہیں تو ہمیں لازمی یہ پوچھنا ہو گا کہ یہ چینل قائم کیوں ہیں؟

مزیدخبریں