امید تو یہ تھی کہ جب اعلی ترین عدالتی ادارے کی سطح پر اس قدر سنجیدہ نوعیت کے معاشی اور ریئل اسٹیٹ گھپلے کی نشان دہی ہوئی تو معاشی محاسبے کے ساتھ ساتھ قانونی گرفت بھی ہوتی۔ دولت یا ڈیل اتنا بڑا جرم کرنے کا جواز ہرگز نہیں ہو سکتی۔
وو ملک جہاں غربت گزشتہ سات دہایوں سے آسمان کو چھو رہی ہو، وہ ملک جہاں پٹرول کی قیمت میں ایک یا دو روپے اضافے سے لاکھوں گھرانوں کے چولہے بجھ جاتے ہوں، وو ملک جہاں آدھی آبادی آج بھی کچے گھروں میں رہنے پر مجبور ہو یا پھر بے گھر ہو اور وہ ملک جس کی صنعتیں اور کاروبار میں دولت کی ریل پیل اس لیے نہ ہو سکے کیوں کہ ساری دولت ریئل اسٹیٹ کے کاروبار میں جھونک دی گئی ہو، وہاں یہ جرم قابل معافی ہرگز نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ڈیل جرم کے محاسبے کا نعم البدل ثابت ہو سکتی ہے۔
روشنیوں کے شہر کراچی میں دن کے اجالوں میں ہونے والا یہ تاریک جرم ہماری ریاست اور انصاف کے اداروں کے لیے کئی سبق رکھتا تھا لیکن افسوس یہ سارے سبق 460 ارب روپے کی دھول میں اڑ گئے۔
یہ غریب عوام کی زمین ہی تھی جس کی قیمت قسطوں میں واپس کرکے کوئی احسان نہیں کیا جائے گا لیکن جو عظیم جرم سرزد ہوا تھا، اس کا تدارک کرنے کے لیے کسی قانونی محاسبے کے عمل کا آغاز نہیں ہو سکا۔
یہ بھی پڑھیں: تاریخ ثاقب نثار کو کن الفاظ میں یاد رکھے گی؟
اور اب معاشی جرم کرنے والے کم از کم اس تسلی کے ساتھ اپنی زندگیوں سے لطف اٹھا سکتے ہیں کہ کبھی شاذ و نادر پکڑ ہوئی بھی تو صرف رقم واپس کر کے باقی جگہوں سے لوٹی دولت پر زندگی سکون سے گزاری جا سکتی ہے اور کلین چٹ بھی مل جائے گی۔ اور صرف سائیکل چور، موبائل چور، چھوٹے قرضوں کی ادایئگی میں ناکامی یا محلے کی دکان سے چوری کرنے والے ہی جیلوں میں سڑیں گے۔
اور بڑے جرم کرنے والے نامور وکیلوں کے قندھوں پر بندوق رکھ کر ہمیشہ ریاست کا چہرہ چھلنی کرتے رہیں گے۔