لیکن جہاں پر سائنس کا معاملہ آئے یا تیزی سے پھیلتی وباؤں کی تشخیص اور روک تھام مقصود ہو، وہاں مذہبی رہنماؤں کو اپنی ہدایات سوچ سمجھ کر دینی چاہئیں۔ کیونکہ ان کے ہر کہے ہوئے جملے کو نہ صرف سنجیدگی سے لیا جاتا ہے بلکہ وہ عوامی رائے عامہ پر بھی اثر انداز ہوتا ہے۔ اب کورونا وائرس کو ہی لے لیجئے تو تقریباً ہر مسلک اور ان کے پیشوا طرح طرح کی توجیہات اور نسخہ جات پیش کر رہے ہیں، جن میں سے اکثر پر نہ صرف سوال اٹھایا جا سکتا ہے بلکہ ان کی نفی کرنا عوامی مفاد میں ہے۔
آج کی اس پیشکش میں ہم دو علما حضرات کا ذکر کریں گے جن کا تعلق تو مختلف مسالک سے ہے لیکن ان کی کہی ہوئی باتوں میں فسانہ زیادہ اور حقیقت کم ہے۔
ایک مولانا صاحب جن کو ہمیشہ ہر چیز میں امریکہ اور مغرب کی سازش نظر آتی ہے۔ یہ ہیں علامہ جواد نقوی صاحب۔ جواد نقوی صاحب نے گذشتہ برس عورت مارچ کے فوراً بعد خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ یہ عورتیں جو صرف اپنے حقوق مانگنے نکلی تھیں، یہ مغرب کے ایما پر ملک میں فحاشی و عریانی پھیلانے کی کوشش کر رہی ہیں اور یہ دنیا کی بدکردار ترین عورتیں ہیں جو معاشرے میں بے حیائی کو عام کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔ اس سے قبل کہ کورونا وائرس کے حوالے سے ان کے تازہ ترین انکشاف کی طرف جایا جائے، پہلے ذرا جواد نقوی صاحب کا وہ بیان سن لیں۔آپ سنیں گے کہ جواد نقوی صاحب کی پڑھی لکھی خواتین کے بارے میں کیا رائے ہے۔
انہوں نے باقاعدہ نام لے کر تعلیمی اداروں میں پڑھانے والی خواتین سے متعلق اخلاق سے گرے ہوئے الفاظ استعمال کیے۔ اسی سے اندازہ کر لیجئے کہ جدید تعلیمی نظام اور جدید تعلیم سے ان کو کس حد تک بیر ہے۔ اسی بیر کا ایک مظاہرہ انہوں نے اپنے ایک حالیہ خطاب میں کیا کہ جہاں انہوں نے کورونا وائرس سے متعلق من گھڑت کہانیاں عوام کو سنا کر گمراہ کرنے کی کوشش کی۔ فرماتے ہیں کہ یہ کورونا وائرس دنیا کے امیر ترین شخص نے ایک برطانیہ میں فیکٹری بنائی تھی، وہاں بنایا گیا اور اس کو چین سے بھی پہلے ایران میں بھیجا گیا اور اس کا ثبوت انہوں نے یہ دیا کہ ایران کے کابینہ ممبران بھی کورونا وائرس کا شکار ہوئے ہیں جب کہ اور کہیں ایسا نہیں ہوا۔
پہلے تو اس غلط فہمی پر بات کر لی جائے۔ کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو کی اہلیہ، ہسپانیہ کے وزیر اعظم کی اہلیہ، فرانس کے ایک وزیر، ایک سیکرٹی اور کئی ممبران اسمبلی، برازیل کے مشیر برائے قومی سلامتی، سینیٹ کے سربراہ، صدر کے میڈیا سیکرٹری، آسٹریلیا کے وزیر داخلہ اور دو عدد سینیٹرز، اٹلی کی حکومتی اتحادی جماعت Italian Democratic Party کے سربراہ اور کئی ممبران پارلیمنٹ، امریکہ کے کئی سینیٹرز، پولینڈ، موناکو، اقوامِ متحدہ، یورپی یونین یوکرین، فلپائن، ناروے، اسرائیل کے ممبران پارلیمنٹ اور اعلیٰ عہدیداروں کے علاوہ برطانیہ کے شہزادہ چارلس تک اس کورونا وائرس کا شکار ہیں۔
رہ گئی یہ بات کہ ایرانی کابینہ کے ممبران اتنی بڑی تعداد میں کیوں کورونا وائرس کا شکار ہوئے تو جواد نقوی صاحب سے گذارش ہے کہ وہ آیت اللہ خامنہ ای سے پوچھیں کہ انہوں نے کورونا وائرس سے متعلق علم ہوتے ہی اس کو روکنے کی بجائے اس کو ایرانی عوام کے مذہبی جذبات کو ماند کرنے کے لئے امریکی سازش کیوں قرار دیا تھا؟ یاد رہے کہ ایران میں تاحال 29 ہزار کے قریب کیسز سامنے آئے ہیں لیکن امریکہ میں اب تک دنیا میں سب سے زیادہ کیسز سامنے آ چکے ہیں جہاں کورونا وائرس کے مریضوں کی کل تعداد 82 ہزار سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ تعداد چین سے بھی زیادہ ہے۔ جس وقت یہ تحریر لکھی جا رہی ہے، امریکہ میں 1184 افراد اس وبا سے ہلاک ہو چکے ہیں۔ ان میں سے 157 ہلاکتیں پچھلے 12 گھنٹوں کے دوران ہوئی ہیں۔
لیکن جواد نقوی صاحب نے معصوم پاکستانیوں کو یہی منجن بیچنا بہتر سمجھا کہ یہ امریکہ کی ایک سازش ہے۔ وہ یہ بھی بھول گئے کہ امریکہ میں مرنے والے افراد بھی انسان ہیں اور ان انسانوں کی بھی زندگی اتنی ہی قیمتی ہے جتنی کہ ایران، پاکستان یا کسی بھی اور ملک میں مرنے والے کسی بھی شخص کی۔
ان کی یہ بات سو فیصد درست ہے کہ حکومتِ پاکستان نے تفتان بارڈر پر زائرین کو قرنطینہ کے نام پر بھیڑ بکریوں کی طرح ایک چھت کے نیچے کئی روز رکھا اور نہ صرف ان لوگوں کی زندگیوں سے کھلواڑ کیا بلکہ ان کے خاندانوں، رشتہ داروں اور ملنے والوں کے ساتھ ساتھ پورے ملک پر بھی ظلم کیا۔ حکومتِ پاکستان نے صرف ایران پلٹ زائرین کو قرنطینہ کر کے ہی یہ ظلم نہیں کیا بلکہ دنیا بھر سے وطن واپس آنے والے 9 لاکھ افراد کی کوئی سکریننگ نہ کر کے بھی اس کو پورے ملک میں پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے جس کا جواب آج نہیں تو کل حکمرانوں کو دینا ہوگا۔
اور دوسری طرف یہ مولوی حضرات ہیں۔ جواد نقوی اکیلے نہیں۔ تبلیغی جماعت کے کورونا کے حوالے سے انتہائی غیر ذمہ دارانہ رویے پر ایک گذشتہ ویڈیو میں تفصیلی گفتگو ہو چکی ہے۔ لیکن تحریک لبیک کی جانب سے بھی مسلسل اس قسم کے بیانات سامنے آ رہے ہیں جو کہ نہ صرف غیر سائنسی اور غیر عقلی بنیادوں پر کھڑے ہیں بلکہ عوام کو بلاوجہ اپنی جانوں سے کھیلنے پر بھی اکسا رہے ہیں۔
گذشتہ ہفتے علامہ اشرف آصف جلالی صاحب نے اعلان فرما دیا تھا کہ وہ 21 مارچ کو لاہور میں کاننفرنس کریں گے اور کسی کو کورونا وائرس نہیں ہوگا۔ اب علامہ فاروق الحسن صاحب کا بیان سامنے آیا ہے کہ مساجد بند کرنے کی بجائے جتنا زیادہ مساجد کو آباد کریں گے، اتنا ہی کورونا وائرس کو ختم کرنے میں مدد ملے گی۔ انہوں نے اس وائرس کے نتیجے میں ہونے والے لاک ڈاؤن سے ایک نئی منطق ایجاد کر لی ہے کہ جب تحریک لبیک نے دھرنا دیا تھا تو لوگ کہتے تھے کہ سب کاروبارِ زندگی بند ہو جائے گا۔ آج بھی تو ہو گیا ہے۔ یعنی ان کے نزدیک ایک غیر قانونی اقدام پر عوامی تنقید اور ایک عالمی وبا کی وجہ سے خود کو گھروں میں مفقود کر لینے پر مجبور ہو جانے میں کوئی فرق ہی نہیں۔ یاد رہے کہ عوامی تنقید کے باوجود وہ اس غیر قانونی اقدام سے باز نہیں آئے تھے اور کئی دن تک اسلام آباد میں فیض آباد انٹر چینج پر دھرنا دیے بیٹھے رہے تھے اور کاروبارِ زندگی حقیقتاً مفلوج رہا تھا۔
جب ان سے سوال کیا گیا کہ یہ وبا تیزی سے پھیلتی ہے اور ایک سے دو، دو سے چار، چار سے آٹھ کو لگتی ہے تو عوامی اجتماعات کو مختصر کر دینے میں حرج کیا ہے، تو فرمایا کہ مدارس بند کر دیے ہیں، مختصر تو ہو ہی گیا ہے۔ لیکن مساجد اور نمازِ جمعہ کو بند نہیں کیا جا سکتا۔ اور اس کے بعد انہوں نے فقہ کی ایک ایسی منطق کو اس مسئلے سے جوڑا جو کسی صورت اس سیاق و سباق میں جائز نہیں۔ انہوں نے کہا کہ بندوں کی اطاعت کے معاملے میں اللہ کی نافرمانی نہیں ہو سکتی۔ ہم احتیاط کے قائل اس وقت تک ہیں جب تک یہ دین سے متصادم نہیں۔ مولانا صاحب مخلوق کی اطاعت کو کہاں بیچ میں لے آئے؟ ان سے گذارش کی گئی کہ حرم میں طواف بند ہو گیا ہے، دنیا کے دیگر اسلامی ممالک نے مساجد کو بند کرنے کا حکم دیا ہے، تو انہوں نے کہا کہ وہ ان کے لئے حجت نہیں۔ حجت اللہ کی کتاب اور نبیؐ کا فرمان ہے اور نبیؐ نے فرما دیا ہے کہ جب بھی کوئی مصیبت آئے تو اللہ کی طرف رجوع کیا جائے۔
اللہ کی طرف رجوع کرنے سے تو مولانا کو کسی نے روکا بھی نہیں تھا۔ اللہ کی طرف رجوع گھر سے ضرور کیا جانا چاہیے، یہ ہم پر فرض ہے لیکن ان کے حکم پر عمل کرتے ہوئے کوئی شخص اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے، اپنے بیوی بچوں، گھر کے دیگر افراد کی زندگیاں خطرے میں ڈالے، یہ حکم کہاں ہے؟ یہ کہاں لکھا ہے کہ وبا کے دوران اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال لو؟
ایسی بے بنیاد اور غیر منطقی باتوں سے ہی اس قسم کے علما نوجوانوں کو غلط راہ دکھا رہے ہیں۔ کوئی اسے اپنے خلاف سازش قرار دینے پر بضد ہے تو کوئی وبا سے خود کو بچانے کی تدبیر کرنے کو اللہ کے احکامات کی خلاف ورزی قرار دے رہا ہے۔ اللہ پاکستانی عوام کو ایسے علما کی اطاعت سے باز رکھے اور ہم سب کو اللہ اور اللہ کے نبی کریمﷺ کے بتائے ہوئے رستے پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔