انہوں نے رسول اکرمؐ کی حیاتِ مبارکہ سے مثال دیتے ہوئے بتایا کہ جب سیلاب یا بہت زیادہ بارش کی صورتحال ہوتی تو اذان میں یہ الفاظ شامل کر دیے جاتے تھے کہ اپنے گھروں میں نماز ادا کر لیں۔ اسی طرح اگر کسی آدمی نے کوئی ایسی چیز کھا لی ہے جس سے کسی دوسرے کو اذیت ہوتی ہے، مثلاً پیاز کے معاملے میں حکم دیا اور لہسن کے معاملے میں بھی کہ یہ کھا کر مسجد میں نہ آئیں تو اس سے مقصود یہی ہے کہ دوسروں کے لئے اذیت کا باعث نہ بنیں۔
غامدی کا کہنا تھا کہ یہ چھوٹی اذیت ہے، اس لئے کہہ دیا جا سکتا ہے کہ دانت صاف کر کے آئیے لیکن یہاں صورتحال اس سے کہیں زیادہ خطرناک ہے تو اس میں وہ اقدامات کیے جا رہے ہیں کہ جس میں لوگوں کو مسجدوں میں نماز باجماعت ادا کرنے سے منع کیا جا رہا ہے یا جیسے حرم میں پابندی لگا دی گئی ہے تو یہ دین کی روح کے بالکل عین مطابق ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ہونا ہی اس طرح چاہیے کیونکہ انسانی جان کو خطرہ لاحق ہو تو عبادات کو گھر میں ادا کیا جا سکتا ہے۔ سفر کی صورت میں کسر نماز ادا کی جاتی ہے۔ خطرے کی صورت میں سواری پر بیٹھے بیٹھے یا چلتے ہوئے نماز پڑھنے کی اجازت ہے لہٰذا نماز میں چھوٹ نہیں مگر اس کی صورتیں تبدیل ہو سکتی ہیں۔
غامدی صاحب پہلے عالمِ دین نہیں جنہوں نے یہ بات کی ہے۔ سعودی عرب میں گذشتہ کئی دن سے نماز باجماعت کے علاوہ خانہ کعبہ کا طواف اور مسجدِ نبویؐ بھی عوام کے لئے بند ہیں۔ ایران میں تمام زیارتوں اور نمازِ جمعہ پر پابندی عائد کی جا چکی ہے۔ عراق سے آیت اللہ سیستانی کا فتویٰ ہے کہ نمازیں گھروں میں ادا کی جائیں۔ مصر سے جامعۃالازہر کا بھی یہی فتویٰ ہے۔ ترکی، کویت، قطر اور دیگر اسلامی ممالک بھی اس فکر کو اپنا چکے ہیں۔
لیکن مجال ہے جو ہمارے علما ٹس سے مس ہونے کو تیار ہوں۔ مفتی منیب الرحمٰن سے گذشتہ شب اے آر وائے پر کاشف عباسی کے پروگرام میں سوال کیا گیا تو انہوں نے صاف اعلان کر دیا کہ وہ اس معاملے پر بحث کے لئے قطعاً تیار نہیں۔ کاشف عباسی نے ان کو حدیث پڑھ کر سنائی تو مفتی صاحب نے فون ہی بند کر دیا۔
تحریک لبیک سے تعلق رکھنے والے علامہ فاروق الحسن صاحب اب بھی بضد ہیں کہ جمعہ کی نماز کو محدود نہیں کیا جا سکتا۔ تبلیغی جماعت کی جانب سے ابتدا میں اس حوالے سے لاپروائی کی گئی اور اب بھی اکا دکا اطلاعات آ رہی ہیں کہ تبلیغی جماعت کی چھوٹی چھوٹی ٹولیاں اور اجتماعات پاکستان اور مختلف ممالک میں جاری ہیں لیکن ان میں بھی بڑی حد تک کمی آ گئی ہے۔ تاہم، ایک مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے افراد تاحال اس سلسلے میں کوئی رعایت برتنے کو تیار دکھائی نہیں دے رہے۔
کراچی میں ایک مسجد کے باہر عوام جمع تھی اور پولیس کی جانب سے ان سے التجائیں کی جا رہی تھیں کہ وہ اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں اور نماز گھروں میں ادا کر لیں۔ پولیس کسی پر تشدد نہیں کرنا چاہتی اور یہ حقیقت بھی ہے کہ تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں لیکن اس کے لئے ان علما کو حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کرنا ہوگا۔ وزیر اعظم عمران خان کی یہ بات درست ہے کہ یہ جنگ حکومت اکیلے نہیں جیت سکتی۔ اس کے لئے عوامی تعاون لازمی ہے اور عوام میں علمائے دین کا کردار انتہائی اہم ہے کیونکہ لوگ ان کی بات کو سنتے ہیں۔ ان پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اور یہ ذمہ داری نہ نبھانے کی صورت میں کوئی ایک شخص بھی کورونا سے بیمار یا جاں بحق ہوا تو اس کے ذمہ دار بھی یہی علما ہوں گے، مذہب یا خدا نہیں کہ جن کے نام پر یہ عوام کو زبردستی باجماعت نمازیں ادا کرنے اور اجتماعات میں شرکت کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔