جمعے کو طبی جریدے جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن شائع تحقیق میں چین کے ہسپتال میں قریب المرگ مریضوں پر اس طریقہ کار کے استعمال کے بارے میں بتایا گیا۔ کووڈ 19 کے ان مریضوں کو تجرباتی بلڈ پلازما ٹرانسفیوژن کا تجربہ کیا گیا اور ان کی حالت میں کافی حد تک بہتری دیکھی گئی۔ اگرچہ یہ تحقیق محدود اور بہت چھوٹے پیمانے پر ہوئی اور حتمی طور پر کچھ طے کرنا مشکل ہے مگر نتائج سے اس طریقہ کار کی افادیت کے خیال کو مزید تقویت ملتی ہے۔
امریکہ میں اس بیماری سے سب سے زیادہ متاثر ریاست نیویارک میں رواں ہفتے اس پلازما ٹرانسفیوژن کو سنگین کیسز کے لیے آزمانے کا اعلان کیا گیا۔
چین کے شینزن ہاسپٹل میں اس تحقیق کے لیے ڈاکٹروں نے 20 جنوری سے 25 مارچ تک 36 سے 73 سال کے 5 مریضوں پر بلڈ پلازما استعمال کیا۔ ان مریضوں کو یہ پلازما ہسپتال میں داخل ہونے کے 10 سے 22 دن کے دوران دیا گیا۔ پلازما ٹرانسفیوژن کے بعد 3 دن کے اندر 5 میں سے 4 مریضوں کا جسمانی درجہ حرارت معمول پر آگیا، 5 میں 4 مریضوں میں 12 دن کے اندر سانس کی شدید تکلیف بھی ختم ہو گئی۔
جمعے کو شائع ہونے والی تحقیق کے نتائج میں بتایا گیا کہ 3 مریضوں کو ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا گیا جبکہ 2 کی حالت مستحکم تھی، مگر فی الحال انہیں وینٹی لیٹر کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔ اس تحقیق پر دیگر طبی ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ محدود تھی، جبکہ ان مریضوں کو تجرباتی اینٹی وائرل ادویات اور اسٹرائیڈز بھی استعمال کرائے جا رہے تھے، جس سے بھی پلازما ٹرانسفیوژن کی افادیت کے بارے میں حتمی طور پر کچھ کہنا مشکل ہے۔
تحقیق میں شامل چینی سائنسدانوں کا کہنا تھا کہ نتائج سے پلازما تھراپی کے لیے صحت یاب افراد کے اینٹی باڈیز کے استعمال کے امکان پر روشنی ڈالی گئی جو کہ زیادہ بیمار افراد کو وائرس سے نجات دلانے کے ساتھ ان کی حالت بہتر بنا سکتا ہے۔ اس قسم کا طریقہ کار 2002 سارز وائرس کی وبا اور 2009 میں سوائن فلو کی وبا کے دوران بھی استعمال کیا گیا تھا۔ اس نئی تحقیق میں کووڈ 19 کے صحتیاب افراد سے خون کے عطیات حاصل کر کے یہ تجرباتی طریقہ کار آزمایا گیا تھا اور ان کے خون سے حاصل پلازما اسی روز سنگین حد تک بیمار مریضوں میں منتقل کیا گیا۔
اگر یہ طریقہ کار بڑے ہیمانے پر موثر ثابت ہوا تو اس کے لیے بڑا چیلنج صحت یاب افراد سے خون کے عطیات کا حصول ہو گا۔