قومی اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اسی عدلیہ نے فیصلہ دیا کہ حکومت کا مطلب صرف وزیراعظم نہیں ہوتا۔ حکومت سے مراد پاکستان کی پوری کابینہ ہے۔ وزیر اعظم کابینہ کی منظوری کے بغیر خود کوئی فیصلہ نہیں لے سکتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ اسی طرح سپریم کورٹ آف پاکستان کی تشکیل صرف چیف جسٹس سےنہیں ہے بلکہ سپریم کورٹ کے ہر رکن سے ہوتی ہے۔
اپنے خطاب کے دوران بلاول بھٹو نے سپیکر پر زور دیا کہ وہ ایک مشترکہ پارلیمانی کمیٹی تشکیل دیں جس میں سینیٹ کے ارکان، قومی اسمبلی کے ارکان، حکومتی نمائندے اور اپوزیشن کے ارکان شامل ہوں۔ تاکہ قانون سازی کی جاسکے اور فیصلے لیے جا سکیں۔
پیر کو سپریم کورٹ کے دو ججوں نے 27 صفحات پر مشتمل حکم نامہ جاری کیا جس میں دونوں جج صاحبان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کو مسترد کر دیا۔
پنجاب اور کے پی الیکشن کی تاریخ کے تعین کے حوالے سے لیے جانے والے سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس کے حوالے سے جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کا تفصیلی فیصلہ سامنے آ گیا ہے۔ دونوں ججوں نے صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی درخواستیں مسترد کر دیں اور لاہور اور پشاور ہائی کورٹس کو اس حوالے سے زیر التوا درخواستوں پر 3 روز میں فیصلہ سنانے کی ہدایت کی گئی۔
27 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے کہا ہے کہ ازخود نوٹس 4 ججز نے مسترد کیا، آرڈر آف کورٹ 3-4 کا فیصلہ ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ چیف جسٹس کے ’ون مین پاور شو‘ کے اختیار پر نظرثانی کرنا ہوگی۔ سپریم کورٹ کو صرف ایک شخص کے فیصلوں پر نہیں چھوڑا جا سکتا۔ وقت آ گیا ہے کہ چیف جسٹس آفس کا ’ون مین شو‘ کا لطف اٹھانے کا سلسلہ ختم کیا جائے۔ ازخود نوٹس کے اختیار کے بارے میں فُل کورٹ کے ذریعے پالیسی بنانا ہو گی۔