انٹیلی جنس ایجنسیوں کا پاکستان میں جو کردار رہا ہے ان کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ ججز کے الزامات درست ہوں گے۔ چھینکے کا منہ کھلا رہ جائے تو بلی کو ہی شرم کر لینی چاہیے۔ ایک سیاسی جماعت اس ایشو پر ڈیڑھ انچ کی مسجد کھڑی کرنے کی کوشش کر رہی ہے مگر اس معاملے میں مذکورہ سیاسی جماعت کا اپنا کردار قابل شرم رہا ہے۔ سیاسی جماعتیں جب تک دوغلا پن نہیں چھوڑیں گے، عدلیہ میں مداخلت جاری رہے گی۔ یہ کہنا ہے حنا جیلانی کا۔
نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو 'خبرسےآگے' میں رپورٹر عمران وسیم نے بتایا آئین کا آرٹیکل 209 واضح ہے کہ سپریم جوڈیشل کمیشن کے پاس جوڈیشل کنونشن بلانے کا اختیار ہے اور نا ہی وہ کسی حساس ادارے کے خلاف تحقیقات کر سکتی ہے۔ یہ خط غلط جگہ بھجوایا گیا ہے۔
تازہ ترین خبروں اور تجزیوں کے لیے نیا دور کا وٹس ایپ چینل جائن کریں
قانون دان جہانگیر خان جدون نے کہا یہ روایت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ڈالی تھی کہ جونہی وہ کوئی خط لکھتے تھے میڈیا کو چلا جاتا تھا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز نے رائے مانگی ہے کہ اگر کسی جج پر پریشر آئے تو وہ حساس اداروں کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کر سکتی ہے یا نہیں۔ اس پر میکنزم بنانے کی ضرورت ہے۔
رضا رومی نے کہا سپریم کورٹ کو عدلیہ میں مداخلت روکنے کے لیے کوئی طریقہ کار بنانا ہو گا۔ سوال اٹھتا ہے کہ 2017 سے 19 تک اسلام آباد ہائی کورٹ سے ایک خاص سیاسی جماعت کے خلاف جس طرح پے در پے فیصلے آتے رہے تو کیا وہ بھی دباؤ میں سنائے گئے تھے؟ پی ٹی آئی اس معاملے پر دہرے معیار اور دوغلے پن کا مظاہرہ کر رہی ہے۔
برگیڈیئر (ر) فاروق حمید خان کے مطابق ججز پر دباؤ کے معاملے کو پبلک کرنے کے بجائے اسلام آباد ہائی کورٹ کے لیول پہ ہی حل کر لینا چاہیے تھا۔
میزبان نادیہ نقی تھیں۔ 'خبرسےآگے' ہر پیر سے ہفتے کی شب 9 بج کر 5 منٹ پر نیا دور ٹی وی سے پیش کیا جاتا ہے۔