اب ملک کے سینئر صحافی حامد میر نے چینی بحران تحقیقاتی رپورٹ کے ایسے پیرا گراف کی طرف نشاندہی کی ہے کہ جس میں یہ بتایا گیا ہے کیسے شہباز شریف شوگر ملز مالکان کے دباؤ کو کسی خاطر میں نہ لائے اور کاشتکاروں کو ان کے استحصال سے بچانے کے لئے ہر ممکن حد تک گئے۔ حتیٰ کہ چینی کے کاروبار کرنے والوں میں انکے اپنے خاندان کے افراد بھی شامل تھے۔
اس رپورٹ کے پیرا 422 کے مطابق 2017-18میں اسپیشل برانچ پنجاب نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ کو بتایا کہ کئی شوگر ملیں گنے کے کاشتکاروں کو کم از کم امدادی قیمت بھی ادا نہیں کر رہیں۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب اسپیشل برانچ کے ذریعہ اس معاملے پر روزانہ رپورٹ تیار کرتے تھے لیکن اس کا کوئی خاطر خواہ فائدہ نہ ہوا کاشت کاروں کو امدادی قیمت بہت کم ملی۔
خیبر پختونخوا اور سندھ میں اسپیشل برانچ نے اس معاملے پر کبھی کوئی رپورٹ وزیر اعلیٰ کو نہیں دی۔ شوگر کمیشن نے اپنی رپورٹ میں کم از کم یہ اعتراف تو کر لیا کہ شہباز شریف وزیر اعلیٰ کے طور پر کاشت کاروں کے ساتھ شوگر مل مالکان کے ظلم وستم پر آنکھیں بند کرکے نہیں بیٹھے ہوئے تھے حالانکہ ان کے اپنے خاندان کا بھی یہی کاروبار تھا۔
حامد میر نے لکھا کہ اُس زمانے کے ہوم سیکرٹری پنجاب اعظم سلیمان بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے کاشت کاروں کی شکایت پر کتنے مل مالکان کے خلاف مقدمے دج کرائے تھے۔
شوگر انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں چینی برآمد پر سبسڈی دینے پر وزیر منصوبہ بندی اسد عمر، وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صنعت و تجارت عبدالرزاق داؤد اور وزیراعلیٰ پنجاب کمیشن کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان نے گذشتہ 5 سالوں میں 40 لاکھ ٹن سے زائد چینی برآمد کی، جس پر برآمداتی سبسڈی کی مد میں 29 ارب روپے دیے گئے۔ چینی پر سبسڈی دینے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ملز مالکان لاگت سے کم بین الاقوامی قیمت پر چینی برآمد کرتے ہیں تو لاگت اور قیمت میں آنے والے فرق کو ٹیکس دہندگان کی محنت سے کمائے گئے پیسے سے دور کیا جاتا ہے۔