جب پاکستان کے امریکا نواز فوجی حکمرانوں نے ایٹمی پروگرام میں روڑے اٹکائے: پاکستان کے ایٹم بم کی کہانی

12:04 PM, 28 May, 2020

نیا دور
سٹاک ہوم انٹرنیشنل  پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ  کے مطابق دنیا میں اس وقت 9  ایسے ممالک ہیں جن کے پاس کسی نہ کسی شکل میں ایٹمی ہتھیار موجود ہیں۔ جن میں سے 7 اعلانیہ ایٹمی طاقت رکھتی ہیں اور ان میں سے ایک پاکستان ہے۔ پاکستان نے 28 مئی 1998  کو اس وقت ایٹمی دھماکے کر کے خود کے ایٹمی طاقت  ہونے کا اعلان کیا جب بھارت نے اس سے 17 روز قبل پانچ دھماکے کئے تھے۔

 

پاکستان کی تاریخ کے کئی متنازعہ ابواب میں سے ایک پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تاریخ اور اس کے ہیروز اور ولنز کا انتخاب ہے۔ حقائق یہ بتاتے ہیں کہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ذولفقار علی بھٹو سے شروع ہوا اور نواز شریف کی حکومت کے دوران پایہ تکمیل کو پہنچا لیکن قومی بیانیوں پر قدرت رکھنے والے  مقتدر حلقوں کی جانب سے یہ حقائق کبھی تسلیم نہیں کیئے گئے۔

تاہم اگر پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تاریخ پر نظر دورڑائی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ  اس پورے سفر میں مقتدر قوتوں کے اشیر باد سے جن فوجی حکمرانوں کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے وہ در اصل انتہائی منفی کردار کے حامل رہے۔

بی بی سی کے لئے لکھے گئے اپنے ایک مضمون میں صحافی آصف جیلانی نے پاکستانی ایٹمی ہروگرام کی تاریخ کے حوالے سے اپنی یاداشتوں اور اندر کی معلومات کی بنا پر ایک احاطہ کیا ہے۔

وہ لکھتے ہیں کہ

اکتوبر 1954 میں وزیر اعظم محمد علی بوگرہ کی حکومت کے دوران  پاکستان نے امریکہ کے ایٹم برائے امن (ایٹم فار پیس) کے منصوبہ میں شمولیت کے ساتھ جوہری توانائی کے شعبہ میں تحقیق اور ترقی کے لیے جوہری توانائی کے کمیشن کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ اسے آئزن ہاور منصوبہ بھی کہا جاتا ہے۔ پاکستان کی طرف سے آیئزن ہاور کے اس منصوبہ کو تسلیم کرنے پر پاکستان میں بہت سے لوگوں کا ماتھا ٹھنکا تھا کیونکہ یہ آغاز تھا پاکستان کی طرف سے امریکہ کے قدموں میں خود سپردگی کا۔اسی کے فورا بعد امریکہ اور پاکستان کے درمیان فوجی، سیاسی اور اقتصادی شعبوں میں ہمہ گیر قربت اور تعاون کا دور شروع ہوا۔ اور امریکا پاکستان کو اپنے حصار میں لیتا چلا گیا۔ 

پاکستان پر امریکہ کے اثر کی مکمل گرفت کا نتیجہ یہ رہا کہ اُس زمانے میں پاکستان کی قیادت نے ایک لمحہ کے لیے بھی جوہری اسلحہ کی تیاری کے بارے میں نہیں سوچا۔ جبکہ دوسری جانب سن ساٹھ کی دہائی میں یہ خبریں آنی شروع ہوگئی تھیں کہ انڈیا بڑی تیزی سے جوہری تجربات کی سمت بڑھ رہا ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کی قیادت نے جوہری اسلحہ کے میدان میں قدم رکھنے سے صاف انکار کر دیا.

آصف جیلانی لکھتے ہیں کہ  1964  میں بھارتی وزیر اعظم نہرو کے انتقال پر تعزیت کے لئے  بھارت آنے والے وفد کے سربراہ ذولفقارعلی بھٹو نے انہیں آف دی ریکارڈ  بتایا تھا کہ سن تریسٹھ میں انھوں نے کابینہ میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ پاکستان کو جوہری اسلحہ کی تیاری کے لیے پروگرام شروع کرنا چاہیے، لیکن صدر ایوب خان اور ان کے امریکہ نواز وزیر خزانہ محمد شعیب اور دوسرے وزیروں نے ان کی یہ تجویز یکسر مسترد کر دی اور واضح فیصلہ کیا کہ پاکستان جوہری اسلحہ کرنے کی صلاحیت حاصل نہیں کرے گا۔ 

سن اڑسٹھ میں جب صدر ایوب خان فرانس کے دورے پر آئے تھے تو میں ان کا دورہ کور کرنے کے لیے پیرس گیا تھا۔اس موقع پر فرانسسی صدر چارلس ڈی گال نے پاکستان میں جوہری ری پراسسنگ پلانٹ کی تعمیر کی پیشکش کی تھی لیکن ایوب خان نے یہ پیشکش ٹھکرا دی۔

اس میں شک نہیں کہ یہ ذوالفقار علی بھٹو تھے جنہوں نے پاکستان کو جوہری قوت بنانے کا منصوبہ شروع کیا۔ صدر کے عہدے پر فائز ہونے کے فوراً بعد بھٹو نے ایران، ترکی، مراکش، الجزائر، تیونس، لیبیا، مصر اور شام کا طوفانی دورہ کیا تھا اور میں اس سفر میں ان کے ساتھ تھا۔ اس دورہ کے دو اہم مقاصد تھے۔ ایک مقصد مسلم ممالک سے تجدید تعلقات تھا اور دوسرا پاکستان کے جوہری پروگرام کے لیے مسلم ملکوں کی مالی اعانت حاصل کرنا تھا۔

وہ لکھتے ہیں کہ اس دورے کے فوراً بعد انھوں نے 1973 میں پاکستان کے جوہری اسلحہ کی صلاحیت حاصل کرنے کے پروگرام کا باقاعدہ آغاز کیا اور اس سلسلے میں انھوں نے جوہری توانائی کمیشن کے سربراہ کو تبدیل کیا اور اعلیٰ سائنسی مشیر ڈاکٹر عبدالسلام کو برطرف کر کے ہالینڈ سے ڈاکٹر عبد القدیر خان کو پاکستان بلا لیا۔

بھٹو جوہری پروگرام میں جس تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے اسے امریکہ نے قطعی پسند نہیں کیا اور اس زمانہ کے امریکی وزیر خارجہ کیسنجر نے تو کھلم کھلا دھمکی دی تھی کہ اگر بھٹو نے ایٹمی ری پراسسنگ پلانٹ کے منصوبہ پر اصرار کیا تو وہ نہ رہیں گے۔

ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے مطابق پاکستان کے جوہری سائنس دانوں نے سن چوراسی میں جوہری بم تیار کرنے کی صلاحیت حاصل کر لی تھی اور انھوں نے جنرل ضیاالحق سے کہا تھا کہ وہ کھلم کھلا پاکستان کی طرف سے جوہری بم کی تیاری کے عزم کا اعلان کریں لیکن ان کے امریکی نواز وزیر خارجہ اور دوسرے وزیروں نے سخت مخالفت کی۔

جس کے بعد 28  مئی 1998  میں بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے جواب میں پاکستان کی طرف سے بھی دھماکے کیئے گئے اور اس وقت نواز شریف ملک کے وزیر اعظم تھے۔ ایٹمی سائنسدان  عبدالقدیر خان نے اپنے ایک انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ ایٹمی دھماکوں سے متعلق مشاورتی ٹیم کے تمام اراکین نے دھماکے کرنے یا نہ کرنے کا آخری فیصلہ وزیر اعظم نواز شریف پر چھوڑ دیا تھا جس کے بعد انہوں نے دھماکے کرنے کا اٹل فیصلہ کیا۔ اور یوں پاکستان ایٹمی طاقت بنا۔ 
مزیدخبریں