صحافیوں کی توجہ باقاعدہ منصوبہ بندی سے اس کام پر لگا دی گئی کہ فلاں ہاؤسنگ سوسائٹی نے اتنی زمین خرید کر اتنے پیسے بنا لئے۔ اب جہاں نئی سڑک جا رہی ہو وہاں عام لوگوں اور خاص طور پر سرمایہ داروں کا پیسہ لگانا یا بنانا کس قانون کے تحت جرم ٹھہرایا جائے گا لیکن صحافی بھائی اتنے سیانے ضرور ہیں کہ وہ ٹھلیاں انٹرچینج سے نیچے نہیں اترتے۔ کرہ ارض پر شاید ہی کسی نے ایسی حکومت یا ایسا وزیراعظم دیکھا ہو جو خود منصوبہ بنا کر منظوری دیتا ہو اور پھر بعد میں خود ہی تحقیقاتی رپورٹ بنوا کر اسے لیک کرتے ہوئے اس منصوبے کو ایک گھناؤنے جرم کے طور پر پیش کرتا ہو.
کیا یہ اتنی سادہ سی بات ہے, قطعاً نہیں، اس منصوبے کو متنازعہ بنا کر عوام کی اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس سکینڈل کے شوروغوغا میں شوگر مافیا سے مکمل سودے بازی کر لی گئی، انہیں تقریباً ایک سو پچاس ارب کی دیہاڑی ڈکار جانے پر رضامندی فراہم کی گئی۔ لطیفہ تو یہ بھی ہے کہ ایف آئی اے اور نیب کی تحقیقاتی رپورٹ پر سینیٹر علی ظفر کی کمیٹی قائم کر دی گئی جس کی کوئی قانونی حیثیت نہیں بنتی لیکن ’آزاد میڈیا‘ اس چالاکی پر ابھی تک سوال مرتب نہیں کرسکا۔ کچھ عرصہ پہلے اسی شفاف حکومت نے برطانیہ میں پکڑے جانے والے ملک ریاض کے اربوں روپے اسے واپس اپنے اکاؤنٹ میں رکھنے کی اجازت دے دی لیکن اسی پر بس نہیں بلکہ اسی رنگ روڈ سکینڈل کے شور میں حکومت ملک ریاض کی کراچی میں قابو کی جانیوالی زمین کے معاوضے کی قسطوں کے عدالتی فیصلے میں نرمی کیلئے درخواست جمع کرواتی ہے۔ یہ سب معصومانہ حرکتیں یا لطیفے نہیں بلکہ بہت سارے سکینڈلز میں سے چند ایک بڑے سکینڈل ہے۔
سکینڈل تو یہ بھی بہت بڑا ہے کہ مختلف بین الاقوامی اداروں کی طرف سے کرونا کی وبا کے خلاف ملنے والے تقریباً ساڑھے تین ارب ڈالر وبا کے خاتمے کے لئے استعمال نہیں کئے گئے بلکہ اس رقم کا زیادہ تر حصہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ کم کرنے کیلئے استعمال کیا گیا اور انہی وجوہات کی بناء پر اب ویکسین خریدنے کے پیسے نہیں اور بین الاقوامی ادارے ہیں کہ معاہدے کے مطابق حساب مانگ رہے ہیں۔ تاہم وزارت خزانہ کی جانب سے آڈیٹر جنرل کی رپورٹ کی اشاعت میں تاخیر سے متعلق بیان میں کہا گیا ہے کہ آڈیٹر جنرل کو کرونا اخراجات کی خصوصی رپورٹ کی اشاعت میں تاخیر کے احکامات جاری نہیں کئے گئے۔ کیونکہ اس طرح کی رپورٹس کا آڈٹ کرنا آڈیٹر جنرل کے آفس کا مقدم کام ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اب آڈیٹر جنرل پاکستان کی رپورٹ مؤخر کروانے کی منزل آ گئی ہے۔ ریکارڈ کے مطابق این ڈی ایم اے کو کرونا کی وبا کے خلاف اقدامات کیلئے کل پچیس ارب دئیے گئے جبکہ احساس پروگرام اور صنعتی پیکیج کیلئے تقریباً 390 ارب دئیے گئے.کسان پیکیج کا اعلان تو ہوا لیکن تادم تحریر کسی کسان کو ایک روپیہ بھی نہیں دیا گیا۔ بظاہر یہ تاثر دیا گیا کہ عوام کے بجلی کے بل معاف کر دیے گئے لیکن دراصل تین ماہ بعد یہ موخرکردہ بل بھی وصول کر لئے گئے۔ اس تمام عرصے کے دوران عوام، بین الاقوامی مالیاتی اداروں اور ملکی اداروں کی آنکھوں میں مسلسل دھول جھونکی جاتی رہی اور جہاں بھی خطرہ محسوس ہوا تو این ڈی ایم اے کو بڑی چالاکی سے قربانی کا بکرا بنا کر پیش کیا جاتا رہا۔
امر واقعہ یہ ہے کہ این ڈی ایم اے کو ملنے والے پچیس ارب میں سے کل تیرہ ارب خرچ ہوئے, چھ ارب کی مالیت کا سامان اب بھی موجود ہے جبکہ بارہ ارب روپے بھی اس کے پاس موجود ہیں.اس تیرہ ارب روپے کی خریداری میں تقریباً ایک ہزار وینٹیلیٹرز اور صرف کرونا کے علاج کیلئے چک شہزاد میں بننے والا ہسپتال بھی شامل ہے۔ یاد رہے این ڈی ایم اے نے تمام قانونی تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے ان تمام چیزوں کی خریداری کی اور اس کیلئے اپنے چارٹر کی شق نمبر بتیس کا بھی استعمال نہیں کیا لیکن دوسری طرف این ڈی ایم اے ماضی قریب میں روزانہ عدالتی کٹہرے میں کھڑا پایا جاتا بلکہ یہ پروپیگنڈہ اب تک جاری ہے کہ این ڈی ایم اے نے سپریم کورٹ کو کرونا کے ایک مریض پر پچیس لاکھ روپے خرچ بتایا تھا، حالانکہ واقعہ یہ ہے کہ ایک سماعت کے دوران عدالت نے ممبر این ڈی ایم اے سے پاکستان میں کرونا کے کل مریضوں کی تعداد کا پوچھا اور پھر ان مریضوں کو کل ملنے والی امداد پر تقسیم کرکے فی کرونا مریض پچیس لاکھ کا خرچ خود سے نکالا تھا لیکن یہ بات اب تک این ڈی ایم اے کے کھاتے میں ڈالی جا رہی ہے۔
سکینڈل تو یہ بھی ہے سابقہ وزیر سائنس و ٹیکنالوجی کے تمام دعوؤں کے برعکس پاکستان کے کسی ادارے نے وینٹیلیٹرز تیار کرنا شروع نہیں کئے بلکہ بی یا سی ٹائپ وینٹیلیٹرز کے پروٹو ٹائپ اب جا کے ڈریپ کے پاس منظوری کیلئے جمع کروائے ہیں۔ یہ بی یا سی ٹائپ وینٹیلیٹرز نہیں ہوتے بلکہ آکسیجن ریگولیٹرز کہلاتے ہیں۔ ان تمام حقائق کے باوجود عمران خان سے وینٹیلیٹرز کی ملکی پیداوار کا افتتاح این ڈی ایم اے سے مانگے ہوئے چینی وینٹیلیٹر کے ذریعے اس امر سے بےخوف ہو کے کروا لیا جاتا ہے کہ کل کلاں بات کھل بھی سکتی ہے۔ این آر ٹی سی نے بھی یہی کھیل کھیلا اور ہری پور میں وزیراعظم سے افتتاح کروا کے این ڈی ایم اے کو بارہ وینٹیلیٹرز دینے کا اعلان کیا لیکن ابھی تک ایک وینٹیلیٹر بھی این ڈی ایم اے کو موصول نہیں ہوأ بلکہ بی ٹائپ آکسیجن ریگولیٹر کا نمونہ منظوری کیلئے ابھی ڈریپ کو جمع کروایا گیا ہے۔
حضور قومی کھلواڑ سکینڈل تو یہ بھی ہے کہ کپاس کی پیداوار نصف سے بھی کم رہ گئی، پنجاب میں گندم کی فی ایکڑ اوسط پیداوار تقریباً دس من فی ایکڑ کم ہے، گنے کی فصل کے کسان کو پیسے زیادہ ملے کیونکہ فصل اور فی ایکڑ کاشت پچھلے سال سے کم تھی لیکن انہیں شاندار پیداوار قرار دیا جارہا ہے۔ جس طرح جی ڈی پی کی شرح کو اچانک بڑھانا کام نہیں آسکے گا اس طرح زرعی پیداوار کے غلط اعدادوشمار چینی اور آٹے کی قلت اور مہنگا ہونے کی صورت بہت جلد حکومت کے گلے کا ہار بننے والے ہیں۔
ویسے دیکھا جائے تو ابراج گروپ والے عارف نقوی کے بین الاقوامی کارنامے، عارف نقوی کی پی ٹی آئی و عمران خان کو مبینہ نقد امداد، بشیر میمن کو عارف نقوی کی سفارش اور فارن فنڈنگ کیس بھی تو عمران خان کے ذاتی سکینڈل ہی تو ہیں۔ ویسے تو کشمیر بھی اب ایک سکینڈل ہی ہے لیکن امریکہ کو ائر بیس فراہم کرنا بھی بہت جلد سکینڈل ہی بننے کو ہے اور اسی معاملہ پر دہری چالیں بھی نہیں چلیں گی۔ کب تک ایک سکینڈل سے پچھلے سکینڈل کا اثر زائل کیا جائے گا یا سرکاری طور پر سکینڈل میڈیا کو فراہم کئے جاتے رہیں گے۔ شاید بہت دیر تک ایسا ممکن نہ رہے عوام تو اب فیصلہ کن نتائج مانگتی ہے۔