غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق پشاور کے کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید نے تقریباً دو ہفتے پہلے کابل کا دورہ کیا تھا، جہاں حقانی نیٹ ورک کی موجودگی میں کالعدم ٹی ٹی پی سے ان کے مذاکرات ہوئے تھے۔ ان خبروں پر افواج پاکستان کے شعبہ تعلقات عامہ کے ادارے آئی ایس پی آر یا حکومت کی جانب سے اب تک کوئی موقف سامنے نہیں آیا اور نہ ہی آزاد ذرائع سے ان کی وہاں موجودگی کی تصدیق ہوئی ہے۔
تاہم یہ خبریں گذشتہ دو دنوں سے سامنے آ رہی ہیں کہ حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی امن معاہدے کے قریب پہنچ چکے ہیں اور جلد ہی اس پر کابل میں دستخط ہونگے۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق اب تک دونوں فریقین نے مبینہ طور پر درج ذیل نکات پر اتفاق کیا ہے۔
امن معاہدے کی مبینہ شرائط
ٹی ٹی پی کے تمام قیدیوں کی رہائی اور قبائلی علاقے (فاٹا) سے 60 فیصد فوجیوں کا انخلا، پاکستان کے آئین کی خلاف شرعی دفعات ٹی ٹی پی پر لاگو نہیں ہوں گی جبکہ ملاکنڈ ڈویژن میں نظام عدل کے ضابطے لاگو کئے جائیں گے۔
معاہدے کی مزید مبینہ شقوں کے مطابق ٹی ٹی پی کی لیڈرشپ کے خلاف تمام مقدمات کا خاتمہ، مسلح ٹی ٹی پی کی اس کے اپنے تنظیمی ڈھانچے کے ساتھ دوبارہ آباد کاری (واپسی)، فاٹا انضمام کے خاتمے سمیت ڈرون حملوں پر مکمل پابندی کی شقیں شامل ہیں۔
ٹی ٹی پی کی کارروائیوں پر نظر رکھنے والے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز سے منسلک صحافی احسان ٹیپو محسود نے نیا دور میڈیا کو بتایا کہ امن معاہدے کے حوالے سے جو شقیں منظر عام پر آئی ہیں، باضابطہ طور پر اس کی تصدیق نہ تو ٹی ٹی پی نے کی ہے اور نہ ہی سرکاری سطح پر اس کی کوئی تصدیق ہوئی ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ کچھ سیکیورٹی ذرائع یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ معاہدے کی جو شقیں منظر عام پر آئی ہیں وہ جعلی ہیں تاہم میری رائے یہی ہے کہ یہ ساری شقیں جعلی نہیں ہو سکتیں، ان میں کچھ درست بھی ہو سکتی ہیں۔
پاکستان کی حکومت اور کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان ( ٹی ٹی پی) نے رواں ماہ عارضی جنگ بندی پر اتفاق کیا ہے جو 30 مئی تک جاری رہے گی۔ جیو نیوز کے ایک رپورٹ کے مطابق اب تک حکومت پاکستان نے ٹی ٹی پی کے 30 قیدیوں کو رہا کیا ہے تاہم اس میں کوئی معروف رہنما شامل نہیں ہے۔
واضح رہے کہ اس سے پہلے خبریں سامنے آ رہی تھی کہ پاکستان نے ٹی ٹی پی کے دو اہم رہنما مسلم خان اور محمود خان کو رہا کر دیا ہے مگر سرکاری طور پر تاحال تک اس کی تصدیق نہیں ہو سکی ہے۔
ٹی ٹی پی کے اندرونی معاملات پر نظر رکھنے والے ریڈیو فری یورپ سے وابستہ نامور صحافی داؤد خٹک نے ٹویٹر پر اس معاہدے کی تصدیق کی ہے۔ دائود خٹک نے اپنے ٹویٹر پر لکھا ہے کہ ٹی ٹی پی کا ایک کمانڈر اس معاہدے کے خلاف ہے اور وہ پاکستان سے مزید شرائظ منوانے کا مطالبہ کر رہا ہے جبکہ دوسری جانب پاکستان سیکیورٹی فورسز کے اعلیٰ عہدیدار جماعت کے امیر مفتی نور ولی محسود کے ساتھ ملاقات کرنا چاہتے ہیں۔ صحافی داؤد خٹک نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان آرمی اس معاہدے پر راضی ہے اور 29 مئی کو 150 ممبران پر مشتمل جرگہ افغانستان جا کر اس معاہدے پر دستخط کریگا۔
قبائلی اضلاع کے مقامی رہائشی خصوصاً سیاسی اور سماجی کارکنوں سمیت مقامی تاجر اس مبینہ امن معاہدے کے شقوں پر تحفظات کا اظہار کر رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر قبائلی اضلاع کے رہائشی اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اگر ٹی ٹی پی کے ساتھ امن معاہدہ ہوا اور ان کے جنگجو اسلحے سمیت واپس قبائلی اضلاع کی طرف لوٹ آئے تو یہاں کے لوگوں کے زندگیوں کے تحفظ کا ضامن کون ہوگا؟
ٹی ٹی پی کے ساتھ ماضی میں کئے گئے امن معاہدے
حکومت پاکستان کی جانب سے شدت پسند تنظیم ٹی ٹی پی کے ساتھ حالیہ معاہدہ کوئی نیا نہیں اور ماضی میں بھی حکومت نے شدت پسند تنظیموں خصوصاً ٹی ٹی پی کے ساتھ امن معاہدے کئے تھے۔
حکومت پاکستان نے سب سے پہلا معاہدہ 2004 میں کمانڈر نیک محمد وزیر کے ساتھ کیا لیکن کچھ مہینے بعد یہ امن معاہدہ ناکام ہوا اور نیک محمد وزیر ایک ڈرون حملے میں مارے گئے۔
اس معاہدے کو شکئی امن معاہدے کا نام دیا گیا۔ حکومت اور طالبان کے سابق سربراہ بیت اللہ محسود کے درمیان دوسرا امن معاہدہ سال 2005 میں ہوا لیکن یہ معاہدہ بھی ناکام ہوا۔
سال 2009 میں تحریک طالبان سوات کے ساتھ تیسرا امن معاہدہ کیا گیا جو بری طرح ناکام ہوا اور پھر سوات میں فوجی آپریشن" راہ حق" کا آغاز ہوا۔
اس کے ساتھ ساتھ حکومت پاکستان نے حافظ گل بہادر گروپ، تحریک طالبان باجوڑ کے مولوی فقیر محمد اور منگل باغ کے لشکر اسلام کے ساتھ زبانی معاہدے کئے تھے مگر ان معاہدوں کے بھی کوئی خاطر خواں نتائج سامنے نہیں آئے۔
تاہم سیکیورٹی اور دہشتگردی امور کے ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ اس امن معاہدے سے بھی کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئیں گے اور ماضی کے معاہدوں کی طرح یہ معاہدہ بھی ناکام ہوگا۔