مختصر حکم نامے میں حکومت اور پارلیمان سے کہا گیا ہے کہ آرمی ایکٹ اور آئین کے آرٹیکل 243 میں مناسب ترامیم کے ذریعے بری فوج کے سربراہ کی تعیناتی، مدت ملازمت، تنخواہ، سہولیات، دوبارہ تعیناتی اور توسیع سے متعلق قانون سازی کرے۔ چھ ماہ بعد جنرل باجوہ کے مستقبل کا فیصلہ پارلیمان کی ہونے والی قانون سازی کرے گی۔
25089/
مختصر فیصلے سے بادی نظر میں حکومت پابند ہے کہ وہ آئین کے آرٹیکل 243 میں ترمیم بھی کروائے اور آرمی ایکٹ میں بھی۔ حالانکہ اس پر مختلف آراء آ رہی ہیں لیکن زیادہ وضاحت تفصیلی فیصلے کے نتیجے میں سامنے آئے گی۔
تین دن کی اس بحث نے فوج کے ادارے اور اس کے سربراہ کے امیج پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں لیکن زیادہ نقصان حکومت کا ہوا ہے جو پچھلے پندرہ ماہ میں ایک بحران سے نکل کر دوسرے بحران میں داخل ہو گئی ہے۔
اس فیصلے کا سب سے بڑا نقصان حکومت کا ہوا ہے۔ فوج کے سربراہ کی تعیناتی کا اختیار موجودہ بحران کی وجہ سے حکومت کے ہاتھ سے نکل کر اس پارلیمان کے پاس چلا گیا ہے جس سے یہ حکومت متحارب ہے۔
25014/
اب اگر صرف پارلیمانی ایکٹ میں بھی ترمیم ہونی ہے تب بھی یہ کام مشکل ضرور ہے۔ قومی اسمبلی میں حکومت اور اس کے اتحادیوں کے پاس اکثریت حاصل ہے لیکن پھر بھی اس پر بحث ہوگی لیکن سینیٹ میں اکثریت حزب اختلاف کے پاس ہے لیکن کیونکہ فیصلے میں آرٹیکل 243 میں مناسب ترمیم کا واضح طور پر ذکر بھی ہے اس لیے حکومت مکمل طور پر حزب اختلاف کے رحم و کرم پر ہے۔
آئین کے کسی آرٹیکل میں ترمیم کیلئے دونوں ایوانوں میں الگ الگ طور پر دو تہائی اکثریت درکار ہے۔ موجودہ صورتحال میں حکومت کیلئے یہ مقصد حاصل کرنا اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک عمران سرکار اونچی پہاڑی سے اتر کر حزب اختلاف کی قدم بوسی کرے اور مصالحانہ رویہ اختیار کرے۔
25014/
لیکن جس طرح فیصلہ آتے ہی عمران خان نے اپنی توپوں کا رخ ایک بار پھر حزب اختلاف کی طرف کیا ہے اس سے انہوں نے خود ہی ضروری قانون سازی اور جنرل باجوہ کے مستقبل بطور بری فوج کے سربراہ کے طور پر نئے سوال کھڑے کر دیے ہیں۔
https://www.youtube.com/watch?v=n03Cb6mAn5I
اب اگر حکومت کو یہ تعاون نہیں ملتا تو خود عمران حکومت کا مستقبل بھی خطرے کے زون میں جاتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔
اگر عمران سرکار سپریم کورٹ کے فیصلے پر کامیابی سے عمل درآمد کرنا چاہتی ہے تو اسے اپنے رویے پر ایک بڑا یوٹرن لینا پڑے گا ورنہ اس کا اپنا مستقبل غیر یقینی ہوجائے گا۔