اس سوچ کی وجہ حالیہ مہینوں میں سابق وزیراعظم عمران خان فوج کی سینیئر قیادت کے ساتھ تناؤ پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں اور ایک خیال یہ تھا کہ اس کے نتیجے میں مارشل لا کا نفاذ کر دیا جائے گا لیکن فی الحال اس خدشے سے نمٹ لیا گیا ہے۔
لیکن اس صورت حال کا اندازہ 2018 میں لگانا غالباً اتنا مشکل نہیں تھا جب ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ 'متنازع' انتخابات کے نتیجے میں عمران خان وزیراعظم بنے۔ ان انتخابات میں کرپشن، دھونس و دھمکی، اور شدید دھاندلی کا عنصر نمایاں تھا۔
ایک غالب تاثر یہ ہے کہ رواں برس اپریل میں پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد کے نتیجے میں برطرف کیے جانے والے عمران خان نے اس دوران فوج کی حمایت سے فائدہ حاصل کیا۔ عمران خان کے مرکزی سیاسی حریف نواز شریف نے اپنی حکومت برطرف کرنے کا الزام اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ پر لگایا تھا۔ (جوابی حملے کی کوشش میں عمران خان نے یہی الزام نواز شریف پر لگا دیا۔)
اپنے اقتدار کے ابتدائی مہینوں میں عمران خان نے فوج کے ساتھ قریبی روابط کا لطف اٹھایا۔ فوجی جرنیلوں کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات نے انہیں بھارت کی نظر میں بھی معتبر بنایا، جس سے انہیں دہلی کے ساتھ تعلقات کی بہتری کے لیے کئی اقدامات شروع کرنے میں مدد ملی، جیسا کہ گذشتہ برس کی جنگ بندی۔ لیکن جلد ہی اختلافات سامنے آنے لگے۔ جنرل باجوہ بھارت کے ساتھ تعلقات جلد بحال کرنے کے خواہاں تھے لیکن عمران خان نے محتاط رویّہ اپنایا۔ 2021 کے اواخر میں ان کا لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے معاملے پر فوج کے ساتھ تنازعہ پیدا ہوگیا، کیونکہ وہ انہیں ایک مختلف عہدہ دینے کے فوج کے فیصلے کے برعکس آئی ایس آئی کے سربراہ کے طور پر برقرار رکھنا چاہتے تھے۔
اس عمل سے عمران خان کے حریف یہ سوچنے لگے کہ وہ مذکورہ آفیسر کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے اگلا آرمی چیف مقرر کرنے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔ واضح رہے کہ آئی ایس آئی کے موجودہ سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے حال ہی میں عمران خان پر فوج سے 'غیر قانونی' اقدامات (جن کی تفصیل نہیں بیان کی گئی) کا مطالبہ کرنے کا الزام عائد کیا۔
جب حزب اختلاف کو اندازہ ہوا کہ عمران خان کو فوج کی حمایت حاصل نہیں رہی تو عمران خان کی کمزور پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے برخاست کر دیا گیا۔
عمران خان کی فوج سے حالیہ مخاصمت کی یہی وجہ رہی ہے کہ ان کا خیال ہے کہ ان کے سابق حلیفوں نے ان کو سیاسی حوالے سے دھوکہ دیا اور اس کا بدلہ لینے کے لیے سربراہ تحریک انصاف حالیہ چند ہفتوں میں نئے آرمی چیف کی تعیناتی کے عمل میں ہر ممکن رکاوٹ پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔
یہاں یہ بات یاد رکھنی ضروری ہے کہ عمران خان ایک عام سربراہِ حزب اختلاف نہیں، بلکہ ایک 'پاور پلیئر' ہیں۔ ان کی جماعت دو بڑے صوبوں پنجاب، خیبر پختون خوا اور دو نسبتاً چھوٹے خطوں، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر اپنا کنٹرول رکھتی ہے۔
پاکستان کے صدر عارف علوی تحریک انصاف کے سابق رکن ہیں اور مسلح افواج کے سپریم کمانڈر کی حیثیت رکھتے ہیں، جس کا مطلب ہے کہ رسماً ہی سہی لیکن وزیراعظم کا ان سے کسی بھی آرمی چیف کی تقرری کے حوالے سے صلاح و مشورہ کرنا لازمی ہے۔
عمران خان کی کوشش رہی کہ نئی تقرری میں رکاوٹ پیدا کرنے کے لیے صدر کی مدد حاصل کی جائے، لیکن آخر میں صدر عارف علوی نے محتاط مؤقف اختیار کیا اور ان کو مشورہ دیا کہ نئے آرمی چیف کو تنہا کرنے سے اجتناب کیا جائے۔
عمران خان کی فوج کے ساتھ مخاصمت نے ان کو کئی انتہاؤں تک پہنچایا ہے۔ کچھ عرصہ قبل انہوں نے فوج پر خود کو قتل کرنے کی کوشش کا الزام لگایا اور ایک حاضر سروس جنرل (اور حکومت) پر فائرنگ کے واقعے میں ملوث ہونے کا الزام لگایا جس میں وہ زخمی ہوگئے تھے، اگرچہ ان کے الزام کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔
گرفتار ہو جانے والے حملہ آور نے حملے کی وجوہات مذہبی بتائیں، اگرچہ ملزم کے واقعہ کے حوالے سے ارادے ابھی بھی واضح نہیں ہیں۔ گزشتہ دنوں میں عمران خان نے فوج کے ساتھ اپنے تنازعے کو بڑھاوا دینے کے لیے گیریژن سٹی راولپنڈی میں ایک بڑے جلسے کا انعقاد کیا، لیکن آخر میں دارالحکومت اسلام آباد کی جانب پیش قدمی کا ارادہ ترک کر دیا تا کہ 'انتشار' سے بچا جا سکے۔
فوج کے ساتھ تنازعہ پیدا کرنے کے ذریعے عدم استحکام کی ان کی کوششوں کا ممکنہ ہدف ان کے بڑے مقصد یعنی سردیوں میں نئے انتخابات کے امکان کو آگے بڑھانا ہے۔ کئی سیاست دانوں کا خیال ہے کہ عمران خان دانستہ طور پر مارشل لا کو دعوت دے رہا ہے تا کہ 'سیاسی شہید' کا درجہ حاصل کرکے کرپشن کے الزامات کے تحت نااہلی سے بچا جا سکے۔ ایک حالیہ انٹرویو میں سربراہ تحریک انصاف نے خود کہا؛ 'مارشل لا لگتا ہے تو لگ جائے، میں نہیں ڈرتا۔'
اس دوران جنرل قمر باجوہ نے ایک خطاب میں پھر کہا کہ فوج مستقبل میں سیاسی معاملات سے دور رہے گی اور حقیقت یہ ہے کہ فوج کے آئندہ کے کردار کے علاوہ کوئی اور موضوع فی الوقت عوامی توجہ و گفتگو کا مرکز نہیں ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ایسا عمران خان کی حرکتوں کی وجہ ہی سے ہے۔
اگر عمران خان اپنے کہنے کے مطابق واقعی سیاست میں فوج کی مداخلت نہیں چاہتے تو انہیں میری حمایت حاصل ہے۔ بہرحال نئے آرمی چیف کے لیے سب سے بڑا امتحان 'نیوٹرل' رہنا ہوگا۔ ان کو اپنی غیر جانبداری ثابت کرنا ہوگی اور یہ بھی کہ وہ پارلیمان سے زیادہ طاقتور نہیں ہیں، جسے کسی مداخلت کے بغیر ملکی خارجہ پالیسی، خاص طور پر افغانستان اور بھارت سے تعلقات کے حوالے سے حکمت عمی تشکیل دینے کا اختیار حاصل ہونا چاہئیے۔
نئے سپہ سالار کو افغانستان کی سرحد سے جڑے پاکستانی علاقوں میں امن و امان کی صورت حال پر بھی توجہ مرکوز کرنی چاہئیے، اس لیے کہ وہاں پاک فوج کے سپاہیوں پر روز حملے ہو رہے ہیں۔
تاہم پاکستان میں سیاسی طور پر غیر یقینی صورت حال کا اختتام یہاں نہیں ہوتا؛ آرمی چیف کی تعیناتی میں خلل ڈالنے کی کوشش میں ناکامی کے بعد عمران خان نے اپنے نئے اقدام سے سب کو حیران کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف اپنے کنٹرول میں موجود صوبائی اسمبلیوں سے استعفے دے دے گی۔ وہ اپنا آخری پتا کھیل چکے ہیں اور پاکستانی خود کو اگلے مرحلے کے لیے تیار کر رہے ہیں۔
سینیئر صحافی حامد میر کا یہ مضمون The Washington Post میں شائع ہوا جسے نیا دور قارئین کے لیے اردو قالب میں ڈھالا گیا ہے۔