کردار کشی کی مہم چلا کر عمران خان کی مقبولیت کم نہیں کی جا سکتی

پہلے مختلف سیاست کاروں کو پریس کلبوں میں لے جا کر ان سے پریس کانفرنسیں کروا کے دیکھ لیا، پھر ٹی وی چینلز پر سیاست دانوں کے انٹرویوز نشر کرا کے دیکھ لیے۔ اب خاور مانیکا اور ہاجرہ خان کے ذریعے اسے بدکردار ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس میں نواز لیگ اور ہئیت مقتدرہ دونوں کو ناکامی ہو گی۔

01:33 PM, 28 Nov, 2023

حسنین جمیل

جس طرح سابق وزیر اعظم عمران خان کی مسلسل کردار کشی جاری ہے یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ جیل میں ڈٹا ہوا ہے۔ چاروں صوبوں اور دونوں اکائیوں میں ان کی مقبولیت نہ صرف قائم ہے بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ ہئیت مقتدرہ نے کیا کچھ نہیں کر کے دیکھ لیا۔ 9 مئی کے بوجھ تلے دبی تحریک انصاف پر اب آخری وار بلے کا نشان چھین کر کرنے کی کوشش کی جائے گی اور یہ کر گزرنے کا آغاز ہو چکا ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے تحریک انصاف کو 20 دن کا وقت دیا ہے کہ اپنے جماعتی انتخابات قانون کے مطابق کرائیں۔ اس سے مضحکہ خیز مؤقف شاید ہی کسی الیکشن کمیشن نے وطن عزیز کی 75 سالہ تاریخ میں اختیار کیا ہو۔ کیا دیگر سیاسی جماعتوں یعنی مسلم لیگ نواز، پیپلز پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے جماعتی انتخابات قانونی تقاضوں کے مطابق ہوئے ہیں؟ یہ بہت ہی افسوس ناک رویہ ہے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی تحریک انصاف سے متعلق خدمات خاص طور پر چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی خدمات تاریخ کے اوراق میں محفوظ رہیں گی۔ بات عمران خان کی ہو تو یہ طے ہے کہ ابھی تک مسلم لیگ نواز اور ہئیت مقتدرہ گٹھ جوڑ عمران خان کو توڑنے میں ناکام رہا ہے اور ان کی مقبولیت بھی ختم نہیں کر سکا۔ مختلف اداروں، ذرائع ابلاغ اور خود مسلم لیگ نواز کے سروے عمران خان کی مقبولیت کے نقارے بجا رہے ہیں۔ یہ جو آج کل کپتان کی کردار کشی کی ایک سیریز شروع کی ہے جس میں عمران خان کو غدار اور بد کردار ثابت کرنے کی کوشش جاری ہے، یہ بری طرح ناکام ہو رہی ہے۔

پہلے مختلف سیاست کاروں کو پریس کلبوں میں لے جا کر ان سے پریس کانفرنسیں کروا کے دیکھ لیا، پھر ٹی وی چینلز پر سیاست دانوں کے انٹرویوز نشر کرا کے دیکھ لیے مگر عمران خان کو غدار ثابت نہ کر سکے کیونکہ عوام کپتان کو غدار ماننے کو تیار نہیں۔ اب خاور مانیکا اور ہاجرہ خان کے ذریعے اسے بدکردار ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جس میں نواز لیگ اور ہئیت مقتدرہ دونوں کو ناکامی ہو گی کیونکہ وہ اس سے پہلے ریحام خان کو بھی آزما کر دیکھ چکے ہیں۔ کردار کشی کرنا ہمیشہ سے مسلم لیگ نواز کا وطیرہ رہا ہے۔ یہ 90 کی دہائی سے یہ سب کچھ کرتے چلے آ رہے ہیں۔ ہئیت مقتدرہ ہمیشہ سے ان غیر اخلاقی کاموں میں ن لیگ کی مددگار رہی ہے۔

ذوالفقار علی بھٹو کو ہندو ثابت کرنے کے لیے ان کے ختنے نہ ہونے کے من گھڑت قصے سے لے کر بے نطیر بھٹو اور نصرت بھٹو کی کردار کشی کرنے اور ان کی جعلی تصاویر تقسیم کرنے تک یہ سارے اوچھے ہتھکنڈے نون لیگ نے آزمائے۔ اب نواز شریف مسلسل تحریک انصاف کی خواتین کے بارے نازیبا کلمات ادا کر رہے ہیں مگر ساری عورت مارچ کرنے والیاں بغض عمران خان میں خاموش ہیں۔ نواز شریف یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے اپنے قصے ہیں جن میں ایک مشہور وکیل کی گلوکارہ بیوی کو مبینہ طور پر طلاق دلوانے میں ان کا کردار تھا۔ ایک بھارتی خاتون کے ساتھ ان کے مبینہ معاشقے کی کہانی، شہباز شریف کی شادیوں کے معاملے اور ان کی بیٹی مریم نواز کی مبینہ طور پر ذاتی زندگی کو اگر سربازار لایا جائے تو کیا یہ مناسب ہو گا؟ ہرگز نہیں۔

عمران خان کے منہ سے کبھی نواز شریف، شہباز شریف اور مریم نواز کی ذاتی زندگی پر بات نہیں نکلی مگر آج نواز شریف عمران خان کی بے پناہ مقبولیت کے خوف میں اس حد تک مبتلا ہیں کہ وہ ان کی پارٹی کی خواتین ڈاکٹر یاسمین راشد، صنم جاوید، طیبہ راجہ اور خدیجہ شاہ کے جیل سے باہر آنے میں سب سے بڑی رکاٹ بن چکے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ یہ خواتین باہر آ کر شہر لاہور میں الیکشن کے دن عمران خان کے نام پر ووٹ لے کر ان کے خاندان کی شکست کا باعث بن سکتی ہیں۔ اسی لیے وہ مری سے الیکشن لڑنے کا پروگرام بنا چکے ہیں۔

اگر آج عمران خان جیل میں ٹوٹ جائے، ہئیت مقتدرہ کے سامنے سجدہ ریز ہو جائے تو اس کی مشکلات ختم ہو سکتی ہیں۔ وہ بھی برطانیہ جا سکتا ہے۔ اس کے کارکنوں کو جیلوں سے رہائی مل سکتی ہے مگر فی الحال ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ اسی لیے مسلسل کپتان کی کردار کشی کی مہم جاری ہے۔ اب پراپرٹی کنگ ملک ریاض کے انٹرویو کی بھی باز گشت ہے۔

حرف آخر عمران خان نے جیل میں بیٹھ کر تنہائی میں یہ ضرور سوچا ہو گا کہ جمائما سے طلاق کے بعد طویل عرصے 10 سال تک وہ اکیلا رہا مگر 2015 کے بعد جو یکے بعد دیگر دو نکاح ریحام اور بشریٰ بی بی سے کیے انہوں نے اس کی ساکھ پر کیسے اثرات چھوڑے۔

مزیدخبریں