پیر کو آزادی مارچ کے تحت سکھر میں جلسہ ہوا ہے۔ یہاں سے وہ رحیم یارخان اور پھر ملتان جائیں گے۔
انڈیپینڈنٹ اردو سے تعلق رکھنے والی نامہ نگار رمیشہ علی نے اپنے بلاگ میں بتایا کہ کہ ” آزادی مارچ کا آغاز اتوار کو کراچی کے علاقے سہراب گوٹھ سے ہوا تاہم جلسے میں دور دور تک کسی خاتون کا نام و نشان نہیں تھا اور رپورٹنگ کرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی تھی کیوں کہ میں ایک عورت ہوں “۔
خاتون رپورٹر کا مزید کہنا تھا کہ ”غالباً اس مارچ میں خواتین کو شرکت کرنے کی اجازت نہیں کیوں کہ میں مرکزی سٹیج سے ایک میل کے فاصلے پر گاڑی میں موجود تھی اور میں نے جتنی بار بھی گاڑی سے اتر کرمارچ کی رپورٹنگ کرنے کی کوشش کی، مجھے جلسے کے شرکا میں سے کوئی نہ کوئی واپس گاڑی کی طرف بھیج رہا تھا “۔
ان کا کہنا تھا کہ ”وزارت داخلہ نے جے یو آئی ۔ف کی رضا کار فورس ’انصار السلام‘ پر پابندی عائد کی ہے لیکن یہاں ایک خاکی وردی والے رضاکار نے انتہائی بد تمیزی سے مجھے کہا کہ میری موجودگی سے مارچ کا ماحول خراب ہورہا ہے۔ شاید کچھ قارئین یہ سوچیں گے کہ میرا لباس مناسب نہیں تھا، لیکن میں واضح کر دوں کہ سر سے پاؤں تک میرا جسم ڈھکا ہوا تھا اور سر پر دوپٹہ بھی موجود تھا“۔
رمیشہ علی نے لکھا کہ ”ایک موقعے پر میں نے گاڑی سے باہر آکر کیمرا سیٹ کرنے کی کوشش کی تو سفید لباس میں ملبوس ادھیڑ عمر آدمی نے انتہائی اونچی آواز میں کہا ’آپ یہاں پر کیا تماشا لگا رہی ہیں، یہ آزادی مارچ ہے یہاں عورتیں رپورٹنگ نہیں کرتیں۔‘
اسی طرح ایک اور شخص نے مجھے گاڑی میں واپس بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ’تم عورت ہو تمہیں شرم نہیں آتی، یہاں بے حیائی مت پھیلاؤ۔‘ آخراپنا کام کرنے میں یہ کون سی بے حیائی ہے؟ مجھے سمجھ نہیں آیا“۔
خاتون کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے ان تمام مشکلات کے باوجود اپنا کام مکمل کیا تاہم انہوں نے سوال اٹھایا کہ ”یہ آخر یہ کس قسم کا آزادی مارچ ہے، جہاں ایک عورت کو عزت سے کام کرنے کی آزادی تک نہیں۔ میرے کچھ نہ کہنے اور کرنے کے باوجود خود بخود ’آزادی مارچ ‘کا ماحول کیسے خراب ہورہا تھا“؟