ڈاکٹر ہود بھائی نے اپنی تقریر میں اقبال کو فلسفی سمجھنے سے انکار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اقبال ایک تاریخ دان اور جینئس انسان تھا اور فلسفی ہرگز نہیں تھا۔ اس کے ساتھ انہوں نے اقبال کو سائنس کا بھی منکر قرار دیا ہے۔ ان اعتراضات کو ثابت کرنے کے لئے انہوں نے اقبال کے کئی اشعاروں کے علاوہ انکی کتاب "Reconstruction of Religious Thoughts" اور ان کی سوانح حیات پر لکھی گئی کتاب "زندہ رود" سے کچھ مواد چن کر سامعین کے سامنے رکھا۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر ہود بھائی نے کہا کہ اقبال کے افکار میں یا تشدد کا پہلو پائی جاتی ہے جس سے انہیں اقبال کے پاکستان سے خوف آتا ہے militaristic آیا کہ واقعی اقبال ایسا ہی ہے جس طرح ڈاکٹر پرویز ہود بھائی نے پیش کیا ہے؟
لہٰذا، راقم نے جہاں تک اقبال کو سمجھا ہے اسی تناظر میں محترم ڈاکٹر پرویز ہود بھائی کے اٹھائے گئے اعتراضات کا تنقیدی جائزہ لینا مناسب سمجھا۔
ہمیں اقبال کو سمجھنے کے لئے انہی کے دور کے حالات و واقعات اور وقت کے ساتھ ان کی اپنی سوچ میں آنے والی تبدیلیوں کا بھی خیال رکھنا ہو گا۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کی اردو اور فارسی شعری مجموعے اور دیگر ان کے تصانیف کا مطالعہ بھی اقبال کے افکار کی روح کو سمجھنے کے لئے ناگزیر ہے۔
جب اقبال پیدا ہوا تھا اس وقت ہندوستان پر انگریز سامراج کی حکومت تھی۔ ایک ہزار سالہ مسلمانوں کی حکومت میں مسلمان اور ہندو ساتھ ساتھ ہندوستان میں بس رہے تھے۔ مگر 1857 کی جنگ آزادی کے بعد عنان حکومت مکمل طور پر ملکہ برطانیہ کے ہاتھوں چلی گئی۔ اسی دور میں اقبال نے آنکھ کھولی اور اسی حالت میں 1938 میں دنیا کو خیر باد کہا۔
ان کی زندگی کے شروع کے ادوار میں وہ چاہتے تھے کہ ہندوستان میں بسنے والی تمام قومیں اکھٹی ہو کر پر امن طریقے سے آزادی کے لئے مل کر جدوجہد کریں۔ اسی لئے ان کے شروع کی زندگی ہندوستان میں بسنے والی قوموں کی مجموعی قومیت کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ درج ذیل شعر ان کی اسی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے۔
سارے جہاں سے اچھا ہندوستان ہمارا
ہم بلبلے ہیں اس کے یہ گلستاں ہمارا
اسی طرح انہوں نے ہندوستان میں موجود مختلف قوموں کی نا اتفاقی اور بکھرتی ہوئی شیرازہ دیکھ کر کہا تھا۔
نہ سمجھو گے تو مٹ جاؤ گے اے ہندوستان والو
تمہاری داستاں تک بھی نہ ہو گی داستانوں میں
مگر جوں جوں انہوں نے مشاہدہ کیا کہ ایک طرف تو ہر جگہ مسلمانوں پر اور خصوصا ہندوستان کے مسلمانوں پر ہندوؤں اور انگریز سامراج مل کر حیات تنگ کیا جا رہا ہے اور ظلم وستم روز بروز بڑھنے لگا ہے اور دوسری طرف ان کی آنکھوں نے نسلی، لسانی اور ملکی قوم پرستی کی وجہ سے دنیا میں رونما ہونے والی تباہ کاریاں دیکھی تو مسلمانوں کی بقا اور اس تکلیف دہ صورت حال سے نکالنے کے لئے اور انسانیت کی فلاح و بہبود کے لئے انہوں نے اپنی شاعری کو بحیثیت ہتھیار اسلامی قومیت کے لئے استعمال کرنا شروع کیا۔ انہوں نے جب مشرق و مغرب کے کلچر کو بغور پڑھا تو ان کو حیات انسانی میں امن و سکون اور پیار و محبت کو فروغ دینے کا سب سے اچھا اور بہترین حل اسلامی تعلیمات میں پنہاں نظر آیا۔ اس طرح ان کی زندگی کی آخری ادوار میں ان کے افکار ہندوستانی قومیت سے نکل کر اسلامی قومیت میں مکمل طور پر ڈھل چکا ہوا نظر آتا ہے۔ اقبال کے ان ہر دو کیفیات کو پروفیسر صاحب نے پہلے والا اقبال اور دوسرے والا اقبال سے تشبیہ دی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ اس وقت کے حالات اور نزاکت اور اسلامی تعلیمات میں پوشیدہ حیات انسانی کی فلاح و بہبود پر غیر متزلزل یقین کی وجہ سے اقبال کے افکار اور سوچ میں تبدیلی آتی گئی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے 1930 میں خطبہ آلہ آباد میں پاکستان کا خواب پیش کیا۔ ان کی شاعری میں وہ جوش، ولولہ اور کشش اللہ نے عطا کی تھی کہ جس سے مسلمانان ہند کی دلوں میں غلامی سے چھٹکارہ اور آزادی کا امنگ پیدا ہونے لگا۔ وہ جانتے تھے کہ اس نازک دور میں ان کی شاعری مایوسی کے دلدل میں پھنسی ہوئی مسلمان قوم کے لئے اکسیر کا درجہ رکھتی ہے اور امید کا سہارا بن رہی ہے۔ ایک جگہ پر انہوں نے اپنی شاعری کو بانگ درا اور مسلم قوم کو کارواں کا نام دیا ہے۔
اقبال کا ترانہ بانگ درا ہے گویا
ہوتا ہے جادہ پیما پھر کارواں ہمارا
یہ بات اظہر منشمس ہے کہ ان کی شاعری نے مسلمانان ہند کو خواب غفلت سے جگانے اور ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے میں زبردست کردار ادا کیا۔ اس موقع پر جبکہ اس کی اپنی قوم غلامی کی زنجیر میں جکڑی ہوئی ہوں۔ مثلاً اگر علامہ اقبال یہ کہتا کہ دیکھو میں نے Theory of Relativity پیش کی ہے تم سب ایک قوم بن جاؤ اور اتحاد و اتفاق سے آزادی کی جنگ لڑو تو شاید ایسا ممکن نہیں ہوتا۔ اپنی سوئی ہوئی قوم کو جگانے کے لئے اقبال نے اپنی اشعار میں مختلف تشبیہات اور استعارات سے کام لیا ہے۔ مثلاً درج ذیل شعر جس پر پروفسر ہود بھائی نے اعتراض کیا ہے کہ اس میں اقبال نے ابن سینا اور الفارابی کے علم کو سطحی قرار دیا ہے۔
عروق مردہ مشرق میں خون زندگی دوڑا
سمجھ سکتے نہیں اس راز کو سینا و فارابی
غور کریں تو اس شعر میں بیان کردہ مسلمان فلسفیوں کے علم کو کم تر دکھانے کی کوشش نہیں کی ہے۔ بلکہ اقبال نے خواب غفلت میں پڑے مسلمانان ہند کا غلامی کے خلاف اٹھ کھڑا ہونے کے جذبے کو اجاگر کرنا چاہا ہے۔ ساتھ ہی ابن سینا اور الفارابی کے ساتھ مشرق کے مسلمانوں کا موازنہ کر کے ان کے اندر موجود حوصلہ اور جذبہ کو مہمیز دینے کی کوشش کی ہے۔ اس سے ابن سینا اور فارابی کے علم کو قطعی سطحی قرار نہیں دیا جا رہا بلکہ یہاں انہی کا ہی ذکر کر کے ان کی اہمیت اور تاریخ میں ان کی شخصیات مزید عیاں کرنا مقصود نظر آتا ہے۔ بلکہ اقبال نے تو ابن سینا جیسے سر برآوردہ شخصیات کو مقام فکر کا سالک قرار دیا ہے۔ اپنی نظم ذکروفکر میں وہ کہتے ہیں۔
یہ ہیں سب ایک ہی سالک کی جستجو کا مقام
وہ جس کی شان میں آیا ہے علّم الاسما
مقام ذکر کمالات رومی و عطار
مقام فکر مقالات بو علی سینا
مقام فکر ہے پیمائش زمان و مکاں
مقام ذکر ہے سبحان ربی الاعلیٰ
پروفیسر صاحب کا ایک اعتراض یہ ہے کہ اقبال فلسفی نہیں تھا۔ میں سمجھتا ہوں اقبال نے اپنی فلسفہ حیات کو اشعار کے ذریعے دنیا تک پہنچانے کی کاوش کی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کو صوفی فلسفی شاعر گردانہ جاتا ہے۔ پروفیسر ہود بھائی نے اقبال کی درج ذیل مقطہ میں ان کی فلسفہ سے بے دلی کو ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔
اس قوم میں ہے شوخی اندیشہ خطرناک
جس قوم کے افراد ہوں ہر بند سے آزاد
گو فکر خدا داد سے روشن ہے زمانه
آزادی افکار ہے ابلیس کی ایجاد
اس مقطعہ میں فلسفہ کا ذکر تو نہیں مگر پروفیسر صاحب نے آزادی افکار سے کھلا ذہن معنی لیا ہے اور کھلا ذہن کو فلسفے کی اساس قرار دیا ہے اور یہ سمجھا ہے کہ اقبال نے یہاں کھلا ذہن کو شیطان کی ایجاد کہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک مسلمان مدبر ہونے کی حیثیت سے اقبال نے ہر اس منفی افکار کو ببانگ دہل غلط قرار دیا ہے جو انسانیت اور اسلام کی حدوں سے متجاوز کر جاتے ہوں۔ یہ بات تو طے ہے کہ Freedom of expression یا آزادیِ افکار کا لبادہ اوڑھ کر انسان ہر وہ چیز سوچنے اور ہر وہ کام کرنے پر آمادہ ہوتے ہیں جن سے وہ مقام انسانی سے گر کر حیوانی درجہ پر پہنچ جاتا ہے۔ دراصل اقبال نے ایسی ہی افکار کو شیطان کی ایجاد سے تشبیہ دی ہے۔ ان کے نزدیک افکار اگر خام ہو تو معاشرہ میں تباہی لازم ہو جاتی ہے۔ انسانی فکر کو بے لگام نہیں چھوڑا جا سکتا بلکہ ان حدود میں رہتے ہوئے فکر کو مہمیز دینی چاہئے جس سے کوئی نہ کوئی فلاح انسانی کا پہلو نکلتا ہو۔
مغرب میں عورتوں کو ایک کھلونا کا درجہ مل جانا دراصل ایسی ہی ہر بند سے آزاد افکار کا نتیجہ ہے۔ علاوہ ازیں مختلف دینی عظیم شخصیتوں کے خلاف اخباروں میں کارٹون بنا کر چھپوانا بھی بے لگام آزادی افکار کا شاخسانہ نظر آتا ہے۔ اس لئے ایک اور جگہ پر اقبال نے خود کہا ہے۔
آزادی افکار ہے ان کی تباہی
رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ
ہوفکر اگر خام تو آزادی افکار
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ!
مگر وہ فکر اور سوچ جو انسانوں کے لئے سہولیات اور معاشرے میں مثبت ثابت ہوتے ہوں ان کا مشرقی معاشرے میں ناپید نظر آنے کو اقبال نے ایک المیہ بھی قرار دیا ہے۔ اس حالت کو انہوں نے جا بجا اپنے شعروں میں بیان بھی کر دیا ہے۔ مثلا ارمغان حجاز کے درج ذیل شعر دیکھ لیجیے۔
ضمیر مغرب ہے تاجرانہ ضمیر مشرق راہبانہ
وہاں دگر گوں ہے لحظہ لظہ یہاں بدلتا نہیں زمانہ
اقبال نے سکون سے رہنے والی قوموں کو مردہ قوم قرار دیا ہے۔ قدرت بھی ان قوموں کے ساتھ دیتی ہے جو ہر پل متحرک ہوں۔ اسی لئے بانگ درا کے ایک شعر میں اقبال کہتے ہیں جس کی ڈاکٹر ہود صاحب نے بھی تعریف کی ہے۔
سکون محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
جہاں تک اقبال کا اپنے ایک خط میں یہ کہنا کہ
"افسوس ہوتا ہے کہ میں نے اپنی عمر یورپ کا فلسفہ وغیرہ پڑھنے میں گنوائی۔ خدا تعالی نے مجھے قوائے دماغی بہت اچھے عطا فرمائے تھے۔ مگر یہ قوا دینی علوم پڑھنے میں صرف ہوتے تو آج خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی کوئی خدمت کر سکتا"
یقیناً یہ ان کی حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے بے انتہا عشق کی عکاس ہے۔ یہاں بھی اقبال کی فلسفے سے انکار تو ظاہر نہیں ہو رہا جس طرح ڈاکٹر ہود بھائی نے سمجھا ہے۔ ہاں یہاں انہوں نے یورپ کا فلسفہ تخصیص کے ساتھ لکھا ہے۔ بحیثیت سیاسیات کا طالبعلم ہمیں یونورسٹیز میں Muslim Political Philosophy بھی پڑھائے جاتے ہیں۔
یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اسلام بھی فلسفہ حیات ہے یا نہیں؟ اگر ہاں تو اقبال اسلامی علوم حاصل نہ کرنے پر افسوس کیوں کر رہے ہیں؟ علاوہ ازیں ہمیں فلسفہ کسے کہتے ہیں سمجھنا ہو گا۔ اگرچہ مختلف لوگوں نے مختلف انداز میں اسے بیان کیا ہے۔ عام طور پر اس کی تعریف یہ ہے۔
Philosophy, literllay "love of wisdom" "is the study of general and fundamental questions about existence, knowledge, values, reason, mind, and language."
کیا اقبال کی شاعری اور افکار اوپر دیے گئے فلسفہ کی تعریف کے کسی زمرے میں نہیں آتے؟ یقیناً جواب نفی میں ہو گا۔ ان کی شاعری زیادہ تر فلسفہ خودی کے گرد گھومتی نظر آتی ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نے فلسفہ خودی کو خوبصورت مگر شعری صورت میں وسعت دی ہے۔ بلکہ ایک جگہ انہوں نے فلسفہ اور شعر کی حقیقت کو ایک ہی قرار دیا ہے۔ درجہ ذیل شعر ملاحظہ کیجیے۔
فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا
لفظ تمنا جسے کہہ نہ سکے رو برو
جہاں تک اقبال نے عقل اور عشق کے مابین موازنہ کیا ہے واقعی ان کے نزدیک عشق کو فوقیت حاصل ہے اور یہ کہ عشق دل سے وابستہ ہے اور عقل دماغ سے۔ کہتے ہیں:
بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
اس کا مطلب یہ نہیں لینا چاہئے کہ انہوں نے عقل کو مکمل مسترد کر دیا۔ ان کے نزدیک عقل منزل نہیں ہے بلکہ یہ منزل تک پہنچنے کا سامان ضرور ہے۔ کہتے ہیں۔
گزر جا عقل سے آگے کہ یہ نور
چراغ راہ ہے منزل نہیں ہے
اسی طرح ایک اور جگہ دل اور عقل کے درمیان تعلق بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں۔
بہتر ہے دل کے پاس رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
اقبال نے محسوس کیا تھا مسلمانوں کے لئے ضروری ہے کہ اپنے اندر وہ عشق حقیقی پیدا کریں جو قلب انسانی میں ہی پنپ سکتی ہے۔ ان کے نزدیک مادی طور پر بھی مسلمانوں کا پیچھے رہ جانا اس دل میں موجزن عشق کا فقدان کی وجہ سے تھا۔ وہ مسلمانوں پر چھائی غفلت اور سستی و کاہلی اور جدید تعلیم میں پسماندگی سے بہت زیادہ مغموم و رنجیدہ رہتے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ مسلمان سکوت کے بجائے ہر وقت کسی نہ کسی سود مند کام میں محو رہیں تاکہ حیات انسانی کو وہ معراج نصیب ہو جہاں انسان ایک دوسرے کے لئے مضر ثابت ہونے کے بجائے پیار و محبت کے ساتھ اعلیٰ سے اعلیٰ مقام حاصل کرنے کے لئے جستجو کریں۔ انہیں یقین تھا کہ اللہ سے دعا مانگنا بھی ایک طرح کا ہتھیار ہے۔ مسلمانوں کو محنت کے ساتھ ساتھ اللہ سے دعا بھی کرتے رہنا چاہیے۔ کیا عجب کہ اللہ ان کی تقدیر بدل دے۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ جس قدر اقبال قد آور شخصیت تھے اتنا ہی ان کے دل میں اللہ اور دین اسلام کی تعلیمات پر یقین بہت زیادہ پختہ تھا۔ یہ ایک بہت بڑی بات ہے۔
رہی بات اقبال سائنس کا منکر تھا یا ان کا دل یورپ سے اچاٹ ہو گیا تھا تو راقم پہلے بھی بیان کر چکا ہو کہ اقبال نے جب یورپ کے معاشرے کا قریب سے مشاہدہ کیا تو ایک طرف وہاں کی مادی ترقی کی چکا چوند نظر آئی مگر ساتھ ان کی آنکھوں نے وہ بربادیاں بھی دیکھیں کہ جس سے مغرب کی ترقی یافتہ ممالک کی جڑیں کھوکھلا ہو کر رہ گئیں تھیں۔ نسلی اور ملکی قوم پرستی نے جنگ عظیم اول میں لاکھوں لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا، ایک انسان کا دوسرے انسان کے خون کا پیاسا ہونا سائنس میں سبقت لے جانے والے یورپ کے معاشرے کا حصہ بن چکا تھا۔ شاید اسی طرف انہوں نے اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا۔
ڈھونڈنے والے ستاروں کے گزر گاہوں کو
اپنے افکار کے راہوں پہ سفر کر نہ سکا
سائننس و ٹیکنالوجی کی ترقی کا آخر مقصد بھی یہی ہونا چاہئے کہ حیات انسانی میں آسانیاں پیدا ہوں۔ اگر اس سے حیات انسانی تنگ ہو جاتی ہے تو یہی ترقی رحمت کے بجائے زحمت بن جاتی ہے۔ اقبال سائنس سے منکر نہیں تھا بلکہ وہ چاہتے تھے کہ مادی ترقی کے ساتھ ساتھ انسان کے اندر ایک دوسرے کے لئے درد، پیار، الفت، محبت، مروت اور بھائی چارگی کا مادہ بھی پیدا ہوں جو کہ فی زمانہ انہیں یورپ میں ناپید ہوتا نظر آیا۔ کیونکہ وہاں ہر چیز کو materialistic اور commoditiesکی صورت میں تولنے لگا تھا یہاں تک کہ انسان کو بھی۔
لہذا اقبال کا یورپ کی سائنسی ترقی سے دل اچاٹ نہیں ہوا تھا بلکہ مادی ترقی کی محبت میں انسانی اقدار کو پامال کرنا ان پر ناگوار گزرتا تھا۔ اسی طرح پروفیسر صاحب نے اقبال کے متعلق کہا کہ انہوں نے خود تو سائنس نہیں پڑھی تھی مگر سائنس کے Giants کو للکارا ہے۔ انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا اس ضمن میں ڈاکٹر صاحب نے اقبال کی کتاب 'Reconstructiono of Religious Thoughts' سے یہ اقتباس نقل کیا ہے۔
"Scientific materialism has finally ended in a revolt against matter. The concept of matter has received the greatest the blow from the hand of Einstein"
یہ بات تو سبھی جانتے ہیں کہ آئن سٹائن کے نظریہ اضافت سے پہلے تو مادی سائنس کا قانون صرف مادہ کے گرد گھومتا تھا مگر جب آئن سٹائن نے یہ نظریہ دیا کہ مادہ اور انرجی آپس میں قابل ردو بدل ہے تو واقعی اس سے سائنسی دنیا میں ایک بھونچال سا آیا۔ سائنسدانوں کو مادہ میں موجود ایک اور پہلو کا پہلی دفعہ پتہ چل گیا۔ درج بالا اقبال کے بیان میں بھی یہی مفہوم سمجھنے میں آ رہا ہے اس میں کوئی سائنس کے خلاف انکار کا شائبہ نظر نہیں آتا۔ کہا جاتا ہے کہ اس تھیوری کے بعد اسلامی تعلیمات میں موجود واقعہ معراج بھی ثابت ہوتا ہے۔ جو کہ آج سے چودہ سو سال پہلے وقوع پذیر ہوا تھا۔
اگر کسی نے سائنس نہیں پڑھی ہے مگر اسے سائنس کے جنرل تھیوریز کے حوالے سے سمجھ آ جاتی ہے اور اس پر گفتگو کرنا چاہتا ہے تو یہ ہمیں نہیں کہنا چاہئے کہ اس نے سائنس پر قلم کیوں اٹھایا۔ اسے ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ کیونکہ علم کی مختلف شاخیں بھی آپس میں interrelated ہیں۔ آخر میں یہ بات کہ آیا اقبال کے افکار میںmilitaristic approach پائی جاتی ہے یا یہ کہ وہ لوگوں کو تشدد پر اکساتے ہیں۔ جس کو ثابت کرنے کے لئے پروفیسر ہود بھائی نے اقبال کا درج ذیل شعر پڑھا ہے۔
جھپٹنا، پلٹنا، پلٹ کر جھپٹنا
لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ
یہ شعر اقبال کی نظم شاہین کا ہے دراصل اقبال اپنی قوم کے نوجوانوں میں شاہین کی صفت دیکھنا چاہتے ہیں۔ شاہین ان کی نظر میں وہ پرندہ ہے جس کی اڑان اونچی، نظریں تیز، اور خوددار ہے جو کہ مردہ شکاری نہیں کھاتا۔ یہ ان کا پسندیدہ اور مثالی پرندہ ہے۔ ان کی شاعری میں اس طرح کے تمثیلات اور تشبیہات کے ذریعے نوجوانوں اور ملت کے ہر فرد میں غیرت، عزت، حمیت، عزت نفس، خودداری، اتحاد و اتفاق، محبت، پیار و الفت، دفاع اور خودی خصوصیات پیدا کرنا تھا نہ کہ ان کا مقصود لوگوں کو تشدد پر اکسانا ہے۔
میرے خیال میں جب وزیر اعظم عمران خان بات کرتے ہیں کہ وہ پاکستان کو اقبال کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں، تو ان کے ذہن میں یہی پیمانے موجود ہوں گے۔ لہذا اقبال کے پاکستان پر ہمیں رشک آنا چاہیے نہ کہ خوف۔ میں سمجھتا ہوں کہ ان کی افکار میں تشدد کا پہلو تلاش کرنا شاید شاعر مشرق کے ساتھ زیادتی ہو گی۔