ایک بات کہوں؟ مارو گے تو نہیں؟

01:23 PM, 28 Oct, 2019

بیرسٹر اویس بابر
صلاح الدین ایوبی، وہ ملزم جس کو اے۔ٹی۔ایم کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس نے اپنی موت سے قبل پولیس والے سے استفسار کیا۔

"ایک بات کہوں؟ مارو گے تو نہیں؟" اس نے اجازت لے کر کہا، " آپ نے مارنا کہاں سے سیکھا ہے؟"۔

صلاح الدین نے یہ بات تو کہہ ڈالی مگر پھر اس کی لاش بھی برآمد ہو گئی۔ یہ ناچیز آج صلاح الدین کی یاد میں کچھ کہنا چاہتا ہے۔ لیکن، اس سے پہلے صرف اتنا کہنا چاہوں گا، "مارو گے تو نہیں؟"

میں نے 6 سال برطانیہ میں وکالت کی تعلیم کی غرض سے گزارے۔ کبھی کسی نے روک کر پوچھا تک نہیں کہ آپ کون ہیں اور کہاں سے آئے ہیں؟ کیوں آئے ہیں؟ کب آئے ہیں؟ کب جائیں گے؟ وغیرہ۔ نہ صرف یہ بلکہ انہوں نے ایک غیر ملکی یعنی مجھے دو سال کے لئے یونیورسٹی ہاسٹل کا وارڈن بھی بنایا۔ وہاں پہ وارڈن بننے کی ایک نمایاں بات یہ تھی کہ آپ کو مینیجمنٹ کی طرف سے ماسٹر کی (چابی) دی جاتی تھی جس سے ہر کمرے کا لاک کھلتا تھا۔ اس کے علاوہ مجھ غیر کو ایک بہت اچھی سیکیورٹی کمپنی میں پارٹ ٹائم نوکری مل گئی اور اُلٹا میں نے بڑے بڑے فیسٹیول میں ہزاروں لوگوں کی تلاشیاں لیں اور ان میں سے کسی کے چہرے پہ کبھی بھی آنچ تک نہ آئی۔ اتنا اعتبار؟ اس کے باوجود کہ ہمارا تاثر دنیا میں کچھ اتنا اچھا نہیں ہے۔

اپنے ملک میں صبح چار مرتبہ چند میٹر کے فاصلے پہ مجھ سے پوچھا جاتا ہے کہ میں کون ہوں، کہاں سے آیا اور کہاں جا رہا ہوں۔ اگر لباس اچھا پہنا ہو تو عموماً جلدی جان چھوٹ جاتی ہے۔ مگر آخر میرے اپنے ہی ملک میں میری اپنی ہی پولیس اور خاص طور پہ گیریژن ملٹری پولیس کیوں مجھے اور آپ جیسے عام شہریوں کو جگہ جگہ روک کر پریشان کرتے ہیں۔ اب تو یہ پریشانی توہین محسوس ہونے لگی ہے۔

یہ سب کرنے کا جواز یہ پیش کیا جاتا ہے کہ ملک کے حالات خراب ہیں۔ اگر یہ بات ہے تو گیریژن پولیس والے مشکوک گاڑی والے کی گاڑی کیوں نہیں چیک کرتے؟ محض کارڈ چیک کر کے چھوڑ کیوں دیتے ہیں؟ یا اگر نہ چھوڑیں تو گاڑی والے کو واپس کر دیتے ہیں کہ وہ کینٹ سے نہیں جا سکتا۔ بھئی اگر یہ آدمی آپ کو مشکوک لگ رہا ہے تو اس کو چیک تو کریں۔ کیا آپ اس کو یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ کینٹ کے علاوہ کہیں بھی جا کے دھماکہ کر آئے؟ محض کارڈ چیک کرنے کے لئے گاڑیوں کو سیکیورٹی کے نام پر روکنا کہاں کی سیکیورٹی ہے۔ اب تو مجھے یوں لگنے لگا ہے کہ یہ سب چیک پوسٹیں محض لوگوں کو تنگ کرنے اور سویلین کو اس کی اوقات یاد دلانے کے لئے لگائی گئی ہیں۔ کیونکہ، پوری دنیا میں دہشت گردی کو روکنے کے لئے کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا کہ ہر گاڑی کو روکا جائے بلکہ خبریوں پہ انحصار کیا جاتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ بظاہر اتنی سخت سیکیورٹی کے بھی آرمی پبلک سکول پشاور کا واقعہ ہوا۔ یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ حفاظت کے نام پر عوام کی تذلیل کی جاتی ہے۔ کیا حفاظت کارڈ چیک کرنے کا نام ہے؟ اب سخت تنگ آ کر مجبوراً میں نے ان راستوں سے جانا ہی چھوڑ دیا ہے۔ جہاں ایک شخص محض میری یعنی ایک رہائشی کو بار بار روک کر اس کی تذلیل کرنے کی تنخواہ کے لئے کھڑا ہو۔ اسی طرح پولیس، کسٹم کے چھوٹے لیول کے اہلکار بھی جگہ جگہ رزق پہ نکلے ہوئے ڈرایوروں کو روکتے ہیں اور چائے پانی کی فرمائش کرتے ہیں۔

کتنی عجیب بات ہو گی کہ آپ کے گھر کا چوکیدار اپنی چوکیداری کے لئے ایک اور چوکیدار رکھ لے۔ آپ سوچ میں پڑ جائیں گے کہ آپ نے کیسے بندے کو چوکیدار رکھ لیا ہے جس کو آپ سے ذیادہ خود کی چوکیداری میں دلچسپی ہے۔ کچھ ایسا ہی حال ہمارا بھی ہے۔

ازراہ تفنن
مزیدخبریں