پیمرا نے اپنے اعلامیے میں واضح کیا ہے کہ تمام ٹی وی چینل کسی بھی موضوع پر بات کرنے کے کے لئے ایسے مہمانوں کو مدعو کریں جو نہ صرف متعلقہ شعبوں میں مہارت رکھتے ہوں بلکہ اپنی رائے میں غیر جانب دار بھی ہوں۔
پیمرا نے تمام ٹی وی چینلز کے اینکروں کو قانون کا سہارا لیتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ قوانین کی روشنی میں اینکروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ پروگراموں کو بامقصد اور غیر جانبدارانہ انداز میں چلائیں کیونکہ قانون کے مطابق کوئی بھی اینکر جانبداری یا ذاتی رائے نہیں دیں سکتا۔
واضح رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے کچھ دن پہلے مختلف ٹی وی چینلز کے میزبانوں کو عدالت طلب کیا تھا جس میں عدلیہ کا کہنا تھا کہ ان کے پروگراموں سے عدلیہ کی ساکھ متاثر ہوئی۔
پیمرا کے اس فیصلے پر صحافیوں، اینکرز، سیاستدانوں اور سماجی حلقوں کی جانب سے ملاجلا رد عمل سامنے آیا۔ کچھ حلقوں کی جانب سے اس فیصلے کو اظہار رائے کی ازادی پر حملہ تصور کیا گیا جبکہ دوسری جانب کچھ حلقوں نے پیمرا کے اس فیصلے کو سراہا۔
پاکستان تحریک انصاف کے ممبر قومی اسمبلی اور سابقہ وزیر خزانہ اسد عمر نے پیمرا کے اس فیصلے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اپنے ٹویٹر ہینڈل پر لکھا کہ " پیمرا کا یہ فیصلہ بہت عجیب ہے جس میں اینکروں کو دوسرے ٹی وی ٹاک شوز میں شرکت کرنے کے ساتھ ساتھ رائے نہ دینے کا بھی پابند کر دیا ہے۔ اسد عمر نے پیمرا کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ پیمرا جھوٹی خبروں کے خلاف کارروائی کرے اور اینکرز کی آواز کو نہ دبائے۔
https://twitter.com/Asad_Umar/status/1188706797013622785?s=20
اسد عمر کی اس ٹوئیٹ کے جواب میں سینیئر صحافی اور جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک کے میزبان حامد میر نے اسد عمر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا بہت شکریہ ! کہ آپ نے ان عناصر کی نشاندہی کی، جنہوں نے پیمرا کو غیر جمہوری احکامات جاری کرنے پر مجبور کیا کیونکہ اس عمل سے پورے جمہوری عمل کی ساکھ کو نقصان ہو گا۔
حامد میر کے پیمرا کے حوالے سے ٹویٹ پر ڈان ٹی وی سے وابستہ صحافی انعام اللہ خٹک نے تنقید کرتے ہوئے مؤقف اپنایا کہ آپ نے جیو نیوز کے اس فیصلے پر کیوں تنقید نہیں کی جب انہوں نے چھ مہینے پہلے اپنے سٹاف کو احکامات جاری کیے کہ دوسرے ٹی وی ٹاک شوز میں مہمان کے طور پر شرکت سے گریز کریں۔
https://twitter.com/fawadchaudhry/status/1188676555133931521?s=20
انسانی حقوق کی وزیر شیریں مزاری نے بھی پیمرا کے اس فیصلے پر تنقید کی اور پیمرا کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ کیا خارجہ پالیسی، سیاسیات اور انفارمیشن پر بات کرنے کے لئے مجھے ڈگری درکار ہو گی؟ کیا قابلیت کا تعین ڈگری کرے گی؟ شیریں مزاری نے پیمرا پر طنز کرتے ہوئے لکھا کہ میرے پاس انسانی حقوق کے علم میں ڈگری نہیں، کیا میں ٹی وی پر جا کر انسانی حقوق پر بات کر سکتی ہوں؟
https://twitter.com/HamidMirPAK/status/1188675207097139201?s=20
سینیئر صحافی اور اینکر منیزے جہانگیر نے پیمرا کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ پیمرا ہمیں صحافت نہ سکھائے، ہمیں بخوبی معلوم ہے کہ صحافت کس طرح کی جاتی ہے۔ پیمرا اپنے کام پر توجہ دے اور اظہار رائے کی آزادی کا گلا دبانے کے لئے کسی اور کے اشاروں پر نہ چلے۔
ایک اور صارف میر محمد علی خان نے پیمرا کے اس فیصلے کی تائید کرتے ہوئے لکھا کہ پیمرا کے اس فیصلے میں کیا برائی ہے جس پر کچھ اینکرز پریشان ہیں کہ وہ ماہر کے طور پر دوسرے ٹی وی ٹاک شوز میں نمودار نہ ہوں؟
ایک اور صارف نے پیمرا کے اس فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ پیمرا اپنے صحافتی ٹوٹکے اپنے پاس رکھے۔
فرحت اللہ بابر نے پیمرا کے اس فیصلے کو مضخکہ خیز قرار دیتے ہوئے لکھا کہ پیمرا کس طرح فیصلہ کرے گا کہ کون ماہر ہے اور کون نہیں۔ دیکھو جن لوگوں نے ففتھ جنریشن وار لڑنے کا فیصلہ کیا ہے وہ آزادی مارچ سے پہلے آپے سے باہر ہیں۔
https://twitter.com/FarhatullahB/status/1188495839980855297?s=20
آرڈینری پاکستان نامی ٹوئٹر ہینڈل نے پیمرا کے سابق چیئرمین ابصار عالم کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے لکھا کہ ابصار عالم کو ہم بہت یاد کرتے ہیں کیونکہ وہ ایسے شخص تھے جنہوں نے کچھ حلقوں کے غیر قانونی احکامات ماننے سے انکار کیا۔
ڈاکٹر عبدالستار نے لکھا کہ حکومتی وزرا میں کوئی ایسا بندہ ہے جو اپنے شعبے میں سندیافتہ ہو۔ نیلی پیلی انگریزی سے آپ اپنی وزارت کے لئے اہل ثابت نہیں ہو سکتے۔
سینیئر صحافی اور اینکرپرسن عاصمہ شیرازی نے پیمرا کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے شاعری کا سہارا لیتے ہوئے لکھا کہ،
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
https://twitter.com/asmashirazi/status/1188706806790545408?s=20