پانی کی عدم دستیابی پوری دنیا کیلئے ایک سنگین مسئلہ بن جائے گا ۔ پاکستان میں پانی کی عدم دستیابی کی موجودہ صورتحال ہر گزرتے لمحے کے ساتھ مزید سنگین ہوتی جا رہی ہے ۔ اگر یہی حال رہا تو ماہرین کے مطابق اس بات کا خدشہ ہے کہ خاکم بدہن ملک 2040 میں پاکستان سے صحرا (ریگستان) بننے کے سفر پہ گامزن ہوجائے گا ۔
جیسے جیسے وقت گزرا پوری دنیا نے اپنا ترقی کا لوہا منوایا اور کامیابی کے زینے طے کیے۔ مگر ہم تباہی کی منزل کی جانب گامزن رہے ۔ زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ بلوچستان خیبر پختونخوا ، پنجاب اور سندہ کے کئے علاقے ایسے ہیں جن میں پینے کیلئے صاف پانی کی بھی شدید قلت ہے . اس مسئلے کے حل کیلئے واسا اور متعلقہ انتظامیہ کی کوشیش آٹے میں نمک کے برابر ہیں ۔ جبکہ وفاقی حکومت کے اقدامات تو کہیں رو پوش ہوگئے۔
یہ دنیا مختلف موسمیاتی تبدیلیوں کے زیر اثر ہے جن کے سنگین نتائج ابھی سے نظر آ ر ہے ہیں۔ واشنگٹن ڈی سی کے تھنک ٹینک ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ (ڈبلیو آر آئی) کے مطابق پاکستان سمیت دنیا بھر میں 400 شہر ایسے ہیں جہاں شدید آبی مسائل کا سامنا ہے اور لوگ اس سنگین مسئلے کے نتائج ابھی سے بھگت رہے ہیں۔ پانی کے بحران نے لاکھوں لوگوں کو نقل مکانی پہ مجبور کیا۔ اور مستقبل میں اس سے زیادہ سنگین مسائل جنم لیں گے۔
ڈبلیو آر آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا کی تقریباً ایک تہائی آبادی یعنی 2.6 ارب لوگ ہائیلی واٹر سٹریسڈ ( شدید آبی بحران کا شکار) علاقوں میں زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں۔ اور ان میں بھی 17 ممالک کے 1.7 ارب لوگ ایسے علاقے میں ہیں جہاں شدید آبی مسائل کی بھرمار ہے۔ چلی سے میکسیکو ، جنوبی یورپ سے افریقہ تک، کراچی سے دہلی تک ہر شخص اس عذاب میں مبتلا ہے۔ مشرقی وسطی کے درجن بھر ممالک ایسے ہیں جنہیں شدید آبی مسائل کا سامنا ہے ۔ اگر انڈیا کی بات کی جائے تو پانی کی منیجمنٹ سے لے کر اسکے استعمال تک انڈیا کو شدید مشکلات کا سامناہے ۔ جو عوامی صحت اور اقتصادی ترقی سمیت ہر شے پہ اثر انداز ہوں گے۔
ڈبلیو آر آئی کے ایکوا ڈکٹ 3.0 کے مطابق متعدد ہائیڈرو لوجیکل ماڈلز کا جائزہ لینے کے بعد یہ تعین کیا کہ زمین کی سطح سے اور زیر زمین وسائل سے کتنا پانی استعمال کیا جا رہا ہے۔ جب انکا تناسب 40 سے 80 فیصد کے درمیان ہو تو اسکا مطلب اس علاقے میں شدید آبی مسائل کا سامناہے۔ اسی تحقیق کے ایک سائنس دان رٹگر ہافسٹے نے یہ بھی کہا کہ اگر ڈیٹا کو نمبروں کی بنیاد پہ ترتیب دیا جائے تو یہ دیکھ کر شدید دکھ ہوگا کہ انڈیا میں حالات کتنے خراب ہیں۔ انڈیا اس درجہ بندی میں 13 ویں نمبر پر ہے۔ انڈیا کی 36 میں سے 9 ریاستیں انتہائی شدید آبی مسائل سے دوچار ہیں ۔ ڈبلیو آر آئی کی ایک رپورٹ کے مطابق چنائی جیسے بڑے شہر میں بڑے درجے کا آبی بحران یہ بتا رہا ہے کہ آنے والے دنوں میں انڈیا کو کس قدر مسائل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی رپورٹ میں میکسکو کی جانب توجہ دلاتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ میکسکو کی 32 میں سے 15 ریاستیں سنگین آبی مسائل سے دوچار ہیں۔ اور میکسکو کا آبی نظام انتہائی نازک ہے ۔ یہی نہیں چلی کے 16 علاقوں کو بھی اس کیٹیگری میں شامل کیا گیا ہے۔ روس ، چین اٹلی ، سپین، ترکی اور جنوبی افریقہ بھی ان ممالک میں شامل ہیں جنہیں آنے والے وقت میں شدید آبی مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے ۔ ترکی کی ایک تہائی آبادی اب بھی شدید آبی مسائل کا شکار ہے۔ اور جنوبی افریقہ کے علاقے مغربی کیپ ، بوٹسواناکے 17 اضلاع اور نگولا کو بھی شدید آبی مسائل کا سامنا ہے ۔
اقوام متحدہ کی متعدد ایجنسیوں کے مطابق دنیا شدید موسمیاتی تبدیلیوں کے زیراثر ہے اور یہی موسمیاتی تبدیلیاں پانی کے شدید بحران کا باعث بھی بن سکتی ہیں ۔ غیر متوقع بارشوں اور بڑھتے درجہ حرارت کی وجہ سے بھی پانی کا بحران دیکھا جا سکتا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق اگر یہی حالات رہے تو کچھ نیم نبجر اور بنجر علاقوں میں 24 سے 700 ملین افراد کو 2030 تک نقل مکانی کرنی پڑے گی۔
ڈبلیو آر آئی کے مطابق پانی کی جنگ شروع ہو چکی ہے۔ پانی کی جنگ میں اسرائیل، لیبیا، افغانستان، یمن، شام اور عراق شامل ہیں۔ ایکوا ڈکٹ کے ڈیٹا کے مطابق یہ بات بھی منظ عام پہ آئی ہے کہ اگر معاشی اور سماجی عناصر پانی کے مسائل پیدا کر رہے ہیں مگر بہتر واٹر مینجمنٹ سے ان مسائل کی روک تھام ممکن ہے۔ اس کی بہترین مثال سنگاپور ہے۔ اسرائیل بھی بہترین واٹر مینیجمنٹ کے لئے بہترین ٹیکنالوجی تیار کر رہا ہے۔
موسمیاتی تبدیلیوں کے زیر اثر جیسے جیسے درجہ حرارت بڑھ رہا ہے ویسے ویسے دنیا بھر کے گلیشیرز بھی پگھل رہے ہیں۔ لیکن پاکستان کے شمالی علاقوں کی برفانی چوٹیوں پہ چونکہ درجہ حرارت دن بہ دن کم ہو رہا ہے ۔ تو گلیشیئرز بھی بڑھ رہے ہیں۔ عالمی سطح پہ شاید سائنس دانوں کیلئے اچھی خبر ہو لیکن پاکستان کے عام شہریوں کیلئے یہ ایک بری خبر ہے۔ کیونکہ جیسے جیسے گلیشئرز پگھلنے کی رفتا ر میں کمی آ رہی ہے ویسےویسے دریاؤں میں پانی میں کمی آئے گی۔ اور ایک رپورٹ کے مطابق آئندہ کچھ سالوں میں پاکستان کے دریاؤں کے پانی میں 7فیصد تک کمی دیکھی جا سکتی ہے۔ ایریزونا یونیورسٹی کی ایک تحقیق جس میں ایک پاکستانی سائنس دان فرخ بشیر اور تین امریکی سائنس دانوں شُوبِن زِنگ، ہوشن گپتا اور پیٹر ہیزنبرگ نے قراقرم ، ہمالیہ اور ہندوکش کے پہاڑی سلسلوں پہ واقع گلیشئرز میں 50 برسوں کے دوران ہونے والی تبدیلیوں کا ڈیٹا اکٹھا کرکے یہ بات واضح کی کہ پاکستانی گلیشئرز پہ موسمیاتی تبدیلیوں کا اثر مختلف انداز میں ہو رہا ہے اور پاکستانی پہاڑی چوٹیوں پہ واقع گلیشئرز بڑھ رہے ہیں۔ اور براعظم انٹارکٹیکا کے بعد دنیا بھر میں انہیں دوسرے سب سے بڑے گلیشئرز مانا جا رہا ہے ۔ اور یہی گلیشئرز پاکستان میں پانی کی فراہمی کا ذریعہ ہیں ۔ انکے پگھلنے کی رفتار میں کمی کا مطلب پانی کی کمی ہے ۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں پانی کی قلت کا بحران ہر گزرتے دن کے ساتھ گمبھیر صورت اختیار کرتا جا رہا ہے، کیونکہ زراعت اور عام استعمال کے لئے پانی کی مانگ بڑھ رہی ہے، جبکہ دوسری طرف پانی کا حصول اتنا ہی مشکل ہوتاجا رہا ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ پانی کا حصول کیوں مشکل تر ہو رہا ہے؟ اس کا جواب واضح، شفاف، دو ٹوک اور بالکل سامنے ہے۔ پانی کے منبعوں پر بھارت قابض ہے، جبکہ ہم نے حاصل مواقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے گزشتہ چالیس پینتالیس برسوں میں کوئی نیا آبی ذخیرہ بنانے کی مناسب سعی نہیں کی۔ یہی نہیں ہر سال ڈیمز کی کمی سے سیلابی صورتحال کا سامنا بھی ہم بڑی مستقل مزاجی سے کرتے آرہے ہیں ۔
کیونکہ ہم تو معجزوں کے انتظار میں بیٹھے ہیں۔ اب صورتِ حال اس حد تک خراب ہو چکی ہے کہ جب برسات کا موسم آتا ہے تو ہمارے دو بڑے ڈیم تو کسی حد تک بھر جاتے ہیں، لیکن یہ پانی اتنا نہیں ہوتا کہ ہماری سردیوں کی ضروریات پوری کر سکے۔ جب پانی کے سرچشموں، یعنی گلیشئرز کا پگھلنا بند ہو جاتا ہے تو پانی کی قلت زیادہ ہو جاتی ہے، ویسے بھی گلوبل وارمنگ کے باعث گلیشئرز کا حجم کم ہوتا جا رہا ہے۔
کرہ ارض پر 663 ملین افراد ایسے ہیں جن کے پاس صاف پانی موجود نہیں۔عالمی آبادی میں اضافے کے نتیجے میں پانی کی بڑھتی ہوئی مانگ کے
ساتھ ساتھ جس شرح سے آلودگی اور کھپت قابل استعمال پانی کو کم کر رہی ہے ، اسے بچانے کے طریقے تلاش کرنا پہلے سے کہیں زیادہ اہم ہے۔ پانی کے تحفظ سے نہ صرف ہم سب کو پینے کے پانی کی مستقل فراہمی کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی ، بلکہ اس بات کو یقینی بنانے میں مدد ملے گی کہ ہمارے آنے والی نسل کو اس پانی تک رسائی حاصل ہو جس کی انہیں ضرورت ہے۔ شکر ہے کہ پوری دنیا میں بہت سی سرکاری ، غیر منافع بخش اور یہاں تک کہ کاروباری تنظیمیں ہیں جو اس اہم مسئلے کے بارے میں شعور بیدار کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ جن میں کچھ کا ذکر یہاں کرنا ضروری ہے۔
واٹر چیریٹی ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے جو ترقی پذیر ممالک میں لوگوں کو صاف اور محفوظ پینے کا پانی فراہم کرتا ہے۔ صرف عطیات لینے کے بجائے ،چیریٹی واٹر لوگوں کو صاف پانی کے لیے پیسے جمع کرنے کے لیے اپنی مہمات شروع کرنے پر ابھارتا ہے۔کلین واٹر فنڈ 1974 میں اپنے آغاز سے صاف ، محفوظ پانی اور ہوا کے ساتھ ساتھ گھر اور کام کی جگہ پر آلودگی میں کمی کو فروغ دینے کے لیے کام کر رہا ہے۔ فنڈ کے پروگرام "صاف پانی کے ایکشن کی تعمیر اور تکمیل" کے لیے بنائے گئے ہیں۔ جس نےامریکی قوم کے بڑے قوانین جیسے صاف پانی ایکٹ ، سیف ڈرنکنگ واٹر ایکٹ ، سپر فنڈ کی ترقی ، مضبوطی اور دفاع میں مدد کی ہے۔
گلوبل واٹر چیلنج (جی ڈبلیو سی) ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے جو دنیا بھر میں لوگوں کو پینے کا صاف پانی ، صفائی ستھرائی اور حفظان صحت کی تعلیم فراہم کرتا ہے۔ یہ ادارہ کارپوریشن، بنیادوں اور امدادی تنظیموں کے متنوع اتحاد کے ذریعہ شروع ہوا، جی ڈبلیو سی صحت مند کمیونٹیز بنانے اور ضرورت مندوں کے لیے پینے کے پانی کی دستیابی کو یقینی بنانے کے لیے مستقل حل فراہم کرنے کے لیے ایک منفرد ادارہ ہے۔ جی ڈبلیو سی کا ہدف محفوظ پانی اور صفائی ستھرائی کے بارے میں آگاہی کو لوگوں میں فروغ دینا ہے۔
گلوبل واٹر لیڈر صاف پانی سے متعلق آگاہی کے سلسلے میں کئی دوسرے گروپوں کے ساتھ رابطہ قائم کرتا ہے تاکہ لوگوں کو پانی کے مستقل اقدامات پر تبادلہ خیال کرنے میں مدد ملے۔ عالمی پانی کے رہنما جہاں اس فہرست میں شامل بہت سی دوسری تنظیمیں بنیادی طور پر انفرادی کمیونٹیز کو صاف پانی تک رسائی میں مدد فراہم کرتی ہیں ، وہیں گلوبل واٹر لیڈرز واٹر یوٹیلیٹی کمپنیوں کے مالکان/سی ای اوز اور دیگر ایجنسیوں کے ساتھ مل کر نتائج پیدا کرنے پر مرکوز ہیں۔ لوگوں کو تعلیم دینے اور انہیں عالمی نقطہ نظر سے سوچنے میں مدد فراہم کرتا ہے ، گلوبل واٹر لیڈر پانی کے انتظام کے طریقے میں تبدیلی پیدا کرنے میں مدد کر رہے ہیں۔
پیپسی-کو ایک ایسی صنعت ہے جسے پانی کی کھپت میں نمایاں کمی لانے میں کامیابی ملی ہے جو کہ پانی کے وسائل پر مکمل انحصار کرتی ہے۔ پیپسیکو کی کوششوں اور نمایاں کامیابی پہ انہیں 2012 میں اسٹاک ہوم انڈسٹری نے واٹر پرائز دیا۔ پیپسیکو کی عالمی آبی حکمت عملی کا مرکز صاف پانی تک عوام کی رسائی ہے ، جس میں وہ اپنے کاروبار اور دیگر جو پانی کی دستیابی پر انحصار کرتے ہیں ان کے لیے طویل مدتی ، مستقل پانی کی حفاظت کو فعال بنانا چاہتے ہیں۔ کمپنی نے 2025 تک صاف پانی تک رسائی کے ساتھ کل 25 ملین لوگوں کی مدد کرنے کے اپنے ہدف کے حصے کے طور پر اسٹریٹجک شراکت داروں کے ساتھ محفوظ پانی تک رسائی کے حل میں 40 ملین ڈالر سے زیادہ کی سرمایہ کاری کی ہے ۔
The natural conservancy شمالی امریکہ کی سب سے بڑی ماحولیاتی تنظیموں میں سے ایک ہے۔ جس کا کام فطرت کا تحفظ اور قدرتی ماحول کے بچاؤ کیلئے سر توڑ کوشیش کرنا ہے ۔ صرف یہی نہیں زمینی اور آبی وسائل کی زمینداری کا بیڑہ بھی اس تنظیم نے اپنے سر لیا۔ ایک ملین سے زائد ممبروں کے ساتھ ، نیچرل کنزروینسی فعال طور پر "30 ممالک اور تمام 50 ریاستوں میں دریاؤں ، جھیلوں اور قدرتی زمینوں کی حفاظت کر رہی ہے۔" ان قدرتی وسائل کی حفاظت کر کے ، نیچر کنزروینسی اس بات کو یقینی بنانے میں مدد کر رہی ہے۔ کہ وہ قدرتی مناظر سے لے کر قدرتی وسائل تک ہر چیز کو بحاظت اگلی نسل تک منتقل کر سکیں ۔
سٹاک ہوم انٹرنیشنل واٹر انسٹی ٹیوٹ 1991 میں قائم کیا گیا ،اسٹاک ہوم انٹرنیشنل واٹر انسٹی ٹیوٹ (ایس آئی ڈبلیو آئی ) اسٹاک ہوم ، سویڈن میں قائم ایک ادارہ ہے جو تحقیق کرتا ہے ، ادارہ جاتی صلاحیت کو بڑھانے میں مدد کرتا ہے ، اور آبی وسائل کے حوالے سے مشاورتی خدمات فراہم کرتا ہے۔ ہر سال ، SIWI "ورلڈ واٹر ویک آف اسٹاک ہوم" ایونٹ کا انعقاد کرتا ہے ، جہاں وہ ان تنظیموں اور افراد کو انعامات دیتے ہیں جن کی پانی کے تحفظ میں خدمات قابل ذکر ہیں ۔ان ایوارڈز میں اسٹاک ہوم واٹر پرائز۔ اسٹاک ہوم جونیئر واٹر پرائز ،اسٹاک ہوم انڈسٹری واٹر پرائز شامل ہیں۔ یہی نہیں یہ ادارہ لوگوں میں آگاہی پیدا کرنے میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔
ورلڈ بینک کا واٹر پورٹ فولیو اس وقت 26.7 بلین امریکی ڈالر مالیت کے 170 منصوبوں کا احاطہ کرتا ہے جو قرضے اور تکنیکی مہارت کے حامل ہیں۔ تقریبا 70 فیصد قرضہ پانی کی فراہمی اور صفائی اور آبپاشی کے منصوبوں جیسی خدمات کے لیے صرف کرتا ہے۔ اس کے علاوہ ، پانی کے شعبے سے متعلقہ جزو والے پروجیکٹس جو عالمی بینک کے دیگر عالمی طریقوں کے زیر انتظام ہیں ، انکی لاگت تقریبا 10 بلین ڈالر ہیں ، یعنی بینک کی پانی سے متعلقہ کل سرمایہ کاری 37 بلین ڈالر ہے۔ اگرچہ فقط پیسے سے مسائل حل نہیں ہوتے۔ عالمی بینک کی شراکت سے کمیونٹیز کو صاف ، محفوظ پینے کے پانی تک رسائی دینے کے لیے بنیادی ڈھانچہ فراہم کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اس وجہ سے ، ورلڈ بینک دنیا کے پانی کے مسائل کو حل کرنے والی اعلی تنظیموں کی فہرست میں شامل ہے۔
ورلڈ ریسورس انسٹیٹیوٹ (ڈبلیو آر آئی) آب و ہوا کی حفاظت ، صاف بجلی کے نظام کو قائم کرنے ، کھانے کی صنعتوں کے ماحول پر اثرات کو کم کرنے ، جنگلات کی کٹائی کو روکنے ، پانی سے محفوظ مستقبل بنانے اور شہروں میں معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے کام کرتا ہے۔ اگرچہ ڈبلیو آر آئی مختلف ماحولیاتی اور انسانی مسائل پہ کام کرنے میں مگن ہے مگر پانی کی کمی کے خطرے کے پیش نظر یہ ادارہ اس مسئلے پہ بھی خاطر خواہ توجہ دے رہا ہے ۔ ان کا کام مستقبل میں پانی کی قلت کو کم کرنے اور پانی کے تحفظ کو مزید بہتر کرنے میں مدد کر رہا ہے۔
ورلڈ واٹر کونسل 1996 میں قائم کیا گیا ، ورلڈ واٹر کونسل ایک بین الاقوامی ادارہ ہے جو عوام میں آگاہی کو فروغ دینے ، سیاسی وابستگی پیدا کرنے اور پانی کے اہم مسائل پر کارروائی کو متحرک کرنے کے لیے کام کرتا ہے۔ اس مقصد کے لیے ، کونسل نے اقوام کے درمیان پانی کے تحفظ کے موضوع پر متعدد مکالموں کی سہولت فراہم کی ہے ، جیسے "پانی برائے خوراک اور ماحولیات" اور "پانی اور آب و ہوا" وغیرہ ۔ عوام میں آگاہی کو فروغ دے کر اور حکومتی توجہ پانی کے تحفظ کے پر مرکوز کروا کر ، عالمی آبی کونسل پانی کے تحفظ کی کوششوں کے پیچھے ایک بڑی طاقت ہے۔
جب آپ ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ (ڈبلیو ڈبلیو ایف) کے بارے میں سوچتے ہیں تو ، پانی کی حفاظت سے متعلق کوئی بھی بات آپکے ذہن میں نہیں آتی
لیکن جنگلی حیات اور انکے تحفظ کے ساتھ ساتھ یہ ادارہ پانی کی حفاظت میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے ۔ ڈبلیو ڈبلیو ایف کی کوشیشوں کا ایک حصہ صاف پانی کی فراہمی بھی ہے ۔ یہ ادارہ متعدد حکومتی عہدداروں کے ساتھ مل کر پانی کی حفاظت اور تحفظ میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ یہ ادارہ میٹھے پانی کے وسائل کو عام عوام میں بانٹ رہا ہے اور پانی کے قدرتی ذرائعے کو نقصان پہنچائے بغیر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو صاف پانی مہیا کرنے میں پیش پیش ہیں۔
تاہم جنگلی حیات اور جانوروں کی رہائش گاہوں کے تحفظ کے لیے ان کی کوششوں کی توسیع کے طور پر ، WWF پانی کے تحفظ کی کوششوں کو فروغ دینے کے لیے بڑے پیمانے پر کام کرتا ہے۔ پانی کے وسائل کی حفاظت اور تحفظ کے لیے ان کی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر ، ڈبلیو ڈبلیو ایف متعدد حکومتوں کے ساتھ کام کرتا ہے جو میٹھے پانی کے وسائل کو بانٹتی ہیں اور دریا کے ذرائع کی حفاظت کرتی ہیں تاکہ پانی کے ذرائع کو نقصان پہنچائے بغیر زیادہ سے زیادہ لوگوں کو صاف پانی دستیاب رہے۔
Water.org ایک غیر منافع بخش تنظیم ہے، وہ افریقہ ، وسطی امریکہ اور جنوب مشرقی ایشیا سمیت دنیا کے کئی مختلف علاقوں میں کام کرتی ہے۔ یہ گروپ مقامی پانی کے منصوبوں کے لیے فنڈنگ حاصل کرنے اور ہر علاقے میں مقامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی بجائے خود کو کسی ایک پارٹنر تنظیم سے جوڑنے کے ذریعے کام کرتا ہے
Water.org کے مرکزی اصولوں میں سے ایک پانی کے کسی بھی منصوبے کی کمیونٹی کی ملکیت کا تصور ہے۔ جیسا کہ وہ اپنی ویب سائٹ پر بیان کرتے ہیں ، "کسی پروجیکٹ کو حقیقی طور پر کامیاب بنانے کے لیے ، کمیونٹیز کو دیکھنا چاہیے اور خود کو اس پروجیکٹ کے مالک کے طور پر دیکھنا چاہیے۔" اس مقصد کے لیے ، Water.org کوشش کرتا ہے کہ اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ اس میں شامل کمیونٹیز اپنے متعلقہ منصوبوں کی ہر سطح پر منصوبہ بندی سے لے کر فنانسنگ اور دیکھ بھال تک مصروف ہیں۔
عالمی سطح پانی کی محفوظ فراہمی میں بہت سے ادارے پیش پیش ہیں مگر پاکستان میں باقی سب معاملات کی طرح اس معالے میں بھی ہم آنکھیں موندھے بیٹھے، شاید کسی معجزے کے انتظار میں ہیں ۔ ہم نے اس بات سے بھی کوئی سبق نہ لیا کہ ڈیمز کی کمی کی وجہ سے ہر سال بارشیش کیسے تباہی کا ایک ریکارڈ قائم کرتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب ہم ڈیمز بنانے کی طرف خصوصی توجہ دیں اور ہمارے ایسے علاقے جہاں پینے کا صاف پانی موجود نہیں وہاں صاف پانی کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے ۔ کیونکہ ہر سال کتنے ہی بچے گندہ پانی پینے سے لقمہ اجل بن جاتے ہیں ۔ ہمیں مستقل اور ہنگامی بنیادوں پہ اقدامات کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو صاف اور محفوظ پانی کی فراہمی یقینی بنائیں۔ اور اللہ کی اس بہترین نعمت کو ضائع ہونے سے بچائیں۔