ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس کے بعد جیو ٹی وی کی خصوصی نشریات میں اظہار خیال کرتے ہوئے حامد میر نے بتایا کہ ڈی جی آئی ایس آئی سے ملاقات میں عمران خان نے پوچھا کہ آپ کے خیال میں پاکستان میں عدم استحکام کی اصل وجہ کیا ہے؟ اس کے جواب میں لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم نے کہا کہ ان کے خیال میں پاکستان کے معاشی حالات عدم استحکام کی وجہ ہیں۔ عمران خان نے ان سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں عدم استحکام کی وجہ حزب اختلاف کے رہنما نواز شریف، آصف علی زرداری اور شہباز شریف ہیں لہٰذا آپ ان کو اندر کریں۔ اس کے جواب میں ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ میں ان کو اندر نہیں کر سکتا، اگر آپ چاہتے ہیں کہ ہم ایسا کریں تو آپ ہمیں لکھ کر دیں۔
حامد میر کا کہنا تھا کہ عمران خان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے ملاقات میں ان کے سامنے بھی یہی مطالبات رکھے لیکن انہوں نے عمران خان کو جواب دیا کہ پاک فوج آئین اور ضابطے کی پابند ہے، کسی کو گرفتار کرنا نیب یا ایف آئی اے کا کام ہے، ہم نے بطور ادارہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم سیاست میں دخل اندازی نہیں کریں گے۔ حامد میر کے مطابق جب عمران خان کا اصرار بڑھا تو آرمی چیف نے کہا کہ یہ کام کرنے کے لیے مجھے آرمی چیف نہیں بلکہ آپ کی کرسی پر ہونا چاہئیے۔
سینئیر صحافی نے بتایا کہ مارچ میں اپوزیشن کی جانب سے لائی جانے والی عدم اعتماد کی تحریک کو ختم کروانے کے لیے بھی عمران خان نے پاک فوج کی اعلیٰ قیادت سے مدد مانگی جس پر انہوں نے عمران خان کو تلقین کی کہ وہ حزب اختلاف سے بات چیت کریں۔
امریکی سائفر کے حوالے سے گفتگو کرتے ہوئے حامد میر کا کہنا تھا کہ 11 مارچ کو آرمی چیف جب کامرہ گئے تھے تو وہ سائفر ساتھ لے کر گئے تھے جو انہوں نے عمران خان کو دکھایا۔ اس کے جواب میں عمران خان نے کہا کہ یہ معمولی سی بات ہے۔ مگر پھر چند ہی روز بعد انہوں نے وہی خط ہوا میں لہرا کر سیاسی بیانیہ بنانا شروع کر دیا۔ حامد میر نے مزید بتایا کہ عمران خان نے جو خط جلسے میں لہرایا تھا وہ اصل نہیں تھا بلکہ وہ کاپی تھی جس میں عمران خان اور ان کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے اپنی پسند کے حساب سے تبدیلی کرکے چیزیں ڈالی تھیں۔
حامد میر نے بتایا کہ عمران خان آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی پر زور ڈالتے رہے کہ آپ بھی اسی بیانیے کی حمایت کریں جو انہوں نے سائفر کے معاملے پر بنایا ہے مگر آرمی چیف نے صاف انکار کر دیا۔ کیونکہ ان کو ڈی جی آئی ایس آئی نے انکوائری کر کے بتا دیا تھا کہ کوئی سازش نہیں ہوئی اور عمران خان کا امریکی سازش والا بیانیہ صداقت پہ مبنی نہیں ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ جنرل باجوہ عمران خان کو سمجھاتے رہے کہ ملک میں سیاسی استحکام لے کر آئیں۔ افغانستان کے بارے میں جو بیان آپ نے دیا ہے اس سے ہمارے لیے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔ آپ امریکہ کے بارے میں بیان دیتے ہوئے احتیاط کا مظاہرہ کریں اور روس کے ساتھ تعلقات استوار کرتے ہوئے امریکہ اور روس کی طرف اپنی پالیسی میں توازن برقرار رکھیں۔
یاد رہے کہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹننٹ جنرل ندیم انجم نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ عمران خان ایک طرف جنرل باجوہ سے متعلق میر جعفر، میر صادق اور غدار جیسے الفاظ استعمال کرتے ہیں لیکن دوسری طرف یہی عمران خان جنرل باجوہ کو مارچ میں ایک میٹنگ کے دوران پیشکش کر رہے تھے کہ آپ کو ہم ایک اور توسیع دینے کے لئے تیار ہیں۔ یہی نہیں، عمران خان نے تو تاحیات آرمی چیف بنائے جانے کی پیشکش بھی کی تھی۔
پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما اسد عمر سے جب پریس کانفرنس میں اس بابت سوال ہوا تو انہوں نے کہا کہ جب آئین میں تاحیات آرمی چیف بننے کی گنجائش ہی نہیں ہے تو ہم کیسے یہ پیشکش کر سکتے ہیں؟
تاہم، 92 نیوز پر عامر متین کو دیے گئے انٹرویو میں جب یہ سوال عمران خان کے آگے رکھا گیا تو انہوں نے ناصرف ملاقات کی تصدیق کی بلکہ اپنی پیشکش بھی دہرائی کہ اگر اپوزیشن آپ کو یہ پیشکش کر رہی ہے تو توسیع آپ ہم سے لے لیں لیکن حکومت گرنے نہ دیں کیونکہ اگر اس وقت یہ حکومت گری تو پاکستان نہیں سنبھلے گا، اور وہی ہوا۔
جہاں تک تاحیات توسیع کی بات ہے تو اس حوالے سے یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کی جا سکتی کہ اسد عمر اب تو آئین میں اس کی گنجائش نہ ہونے کا ذکر کر رہے ہیں لیکن وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ پچھلی بار بھی آئینی ترمیم کر کے ہی جنرل باجوہ کو توسیع دینے کے ساتھ ساتھ آرمی چیف کی مدتِ ملازمت کو 64 برس تک کر دیا گیا تھا یعنی ایک اور توسیع کی گنجائش بھی انہوں نے خود ہی نکال دی تھی۔