صحافی اور تجزیہ کار اسد علی طور نے اپنے 28 اکتوبر کے وی لاگ میں ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی 27 اکتوبر کی پریس کانفرنس اور اس پر عمران خان کے ردعمل کے بارے میں تحقیقاتی تجزیہ دیا ہے۔ انہوں نے عمران خان کے لانگ مارچ کے بارے میں بھی کچھ حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔
اسد علی طور کے مطابق غیر معمولی پریس کانفرنس کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ عالمی برادری خاص طور پر سعودی عرب اور چین کو پیغام دیا گیا ہے کہ آرمی کی لیڈرشپ موجودہ حکومت کے ساتھ کھڑی ہے۔ کیوں کہ وزیراعظم ابھی سعودی عرب کے دورے پر ہیں اور اس کے بعد وہ یکم نومبر کو چین کے دورے پر جائیں گے۔ پاکستان نے دونوں دوست ممالک سے قرضہ لے رکھا ہے اور اب ان قرضوں کے ری شیڈول ہونے کا وقت آن پہنچا ہے۔ اگر ان ممالک کو موجودہ حکومت کے جانے کا خدشہ پیدا ہوا تو ہو سکتا ہے وہ پاکستان کا قرضہ ری شیڈول ہونے میں مشکلات پیدا کریں۔
پریس کانفرنس کے بعد تحریک انصاف والوں کے لہجے میں واضح فرق دیکھنے کو ملا ہے۔ فواد چوہدری نے کہا ہے کہ ہم آرمی لیڈرشپ کو میر جعفر اور میر صادق نہیں کہہ رہے تھے بلکہ ہم اپنے لوٹوں کو یہ القابات دے رہے تھے۔
اسد علی طور نے سینیئر صحافی عمر چیمہ کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوا کہا کہ 17 اکتوبر 2022 کو اسلام آباد کے ایف 8 میں صدر عارف علوی، عمران خان اور اسد عمر نے خفیہ طور پر آرمی چیف سے ملاقات کی جس میں آرمی چیف نے ان کو کہا کہ آپ اسمبلی میں واپس جائیں اور اپنے لانگ مارچ کو پر امن رکھیں۔
عمران خان کے لانگ مارچ کے بارے میں اسد علی طور کا کہنا تھا کہ عمران خان سیاسی مس کیلکولیشن کا شکار ہو گئے ہیں اور اپنی ان غلطیوں کی وجہ سے وہ سیاسی موت مر سکتے ہیں۔ ان کا مزید یہ کہنا تھا کہ اگر عمران خان الزامات لگانے سے باز نہ آئے اور اپنا رویہ نہ بدلا تو ان کو اسلام آباد پہنچنے سے پہلے ہی گرفتار کر لیا جائے گا۔
عمران خان گذشتہ چند دنوں سے اپنی تقریر میں جن دو شخصیات کو مسٹر ایکس اور مسٹر وائی کے نام سے یاد کر کے ان کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے انہوں نے لاہور میں ان کے نام ظاہر کر دیے ہیں۔ ان شخصیات میں سے ایک تو ڈی جی سی میجر جنرل فیصل نصیر ہیں اور دوسری شخصیت آئی ایس آئی کے سیکٹر کمانڈر برگیڈیئر فہیم ہیں۔ عمران خان جن صاحب کو 'ڈرٹی ہیری' کے نام سے مخاطب کرتے ہیں وہ ڈی جی سی میجر جنرل فیصل نصیر ہیں۔
اسد علی طور کا کہنا تھا کہ ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا کہ ڈی جی سی کے عہدے کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہو۔ ماضی میں بھی ڈی جی سی کے عہدے پر رہنے والے آفیسرز سیاسی حلقوں کی جانب سے الزامات کا سامنا کرتے رہے ہیں۔ مثال کے طور پر فیض حمید اور عرفان ملک ماضی میں متنازع ڈی جی سی رہے ہیں۔ اسد علی طور نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ڈی جی سی ملک میں سیاسی جماعتوں اور دیگر سیاسی امور کو دیکھ رہے ہوتے ہیں اس لئے وہ ڈی جی آئی ایس آئی سے زیادہ آرمی چیف کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔
موجودہ ڈی جی سی کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ وہ آرمی کے حلقوں میں سپر سپائی کے نام سے جانے جاتے ہیں کیوں کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں انہوں نے بڑا مؤثر کردار ادا کیا تھا۔