سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ پاکستان پینل کوڈ میں بچوں سے زیادتی کے لیے علیحدہ سے کوئی دفعہ سرے سے موجود ہی نہیں۔ یعنی کسی 5 سالہ بچے سے زیادتی کی جائے یا 20 سالہ نوجوان سے، دونوں صورتوں میں پینل کوڈ کا جو سیکشن اس کرائم کو ڈیل کرے گا وہ ہے 377۔ اب آپ ذرا سوچیں کہ ایک جنسی درندے کے سامنے 5 سالہ بچہ یا 20 سالہ نوجوان دونوں ایک ہی کیٹگری میں فال کرتے ہیں؟ یقیناً نہیں۔ ایک مزاحمت کی صلاحیت رکھتا ہے دوسرا نہیں۔ ایک نیت سمجھتا ہے دوسرا نہیں۔ ایک اپنے بچاؤ کے لیے دوڑ جانے، دیوار پھلانگنے یا مدد مانگنے، پولیس کو کال کرنے سمیت دوسرے آپشنز اختیار کر سکتا ہے دوسرا نہیں۔ ایسے میں قانون دونوں کیسز کے جارح اور مجروح کو ایک نظر سے کیسے دیکھ سکتا ہے۔ کیا قانون کی نظر میں 5 سالہ بچے کی چیخ اور 20 سالہ نوجوان کی صدا برابر ہے؟ یہ ہمارے قانون سازوں کے سوچنے کی بات ہے۔ حیرت کی بات ہے کہ چائلڈ پروٹیکشن بل 2014 میں اس مسلئے کے حل کے لیے نہیں سوچا گیا اور موجودہ حکومت بھی پے در پے ایسے مسائل سامنے آنے کے باوجود اس قانونی سقم کو دور کرنے کے لیے ذرا بھی سیریس نظر نہیں آتی۔
اب آ جائیں تھانے کی جانب، اگر کسی نوجوان سے جنسی زیادتی ہو تو یہ عوام الناس اور پولیس کے لیے ایک ٹھٹھے سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ اپنے آپ سے سوال کریں کہ کیا ہم بطور معاشرہ کسی لڑکی سے زیادتی اور کسی لڑکے سے زیادتی کو ایک نوعیت کے جرم سمجھتے ہیں؟ یقیناً نہیں۔ یہ پہلا فرق ہے۔ لہذا سب سے پہلے تو زیادتی کا شکار ہونے والا لڑکا اور اس کے والدین اس جرم کو چھپا لیتے ہیں زیادتی برداشت کر لیتے ہیں۔ صرف اس لیے کہ اگر تھانے جائیں گے تو ملزم تو چھوٹ جائے گا قانون اس کا کچھ بگاڑ نہ پائے گا۔ ہاں، بدنامی ہمارے حصے میں ضرور آئے گی۔ اس لیے لڑکوں سے زیادتی کے کیسز ہمارے ہاں نہ ہونے کے برابر رپورٹ ہوتے ہیں حالانکہ واقعات و حالات پر نظر ڈالیں تو یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں لڑکوں سے زیادتی کے واقعات لڑکیوں سے زیادتی کے واقعات سے کہیں زیادہ ہیں اور یہ ایک ایسا آئس برگ ہے جس کی ٹپ بھی ابھی پوری طرح نظر نہیں آئی۔ قصور اور دیگر اضلاع میں رپورٹ ہونے والے واقعات اسی آتش فشاں کا دہانہ ہیں جو جب پھٹا تو ہم سب کو ششدر کر کے رکھ سکتا ہے۔
اب بات آتی ہے تفتیش پر، اس مرحلے کو بیان کرنے کے لیے مجھے شرم کی چادر کو تھوڑی دیر اتارنا ہو گا۔ کیونکہ جب تک ہم اس مسئلے کو کھل کر بیان نہیں کریں گے اس کی سمجھ آنا ناممکن ہے۔ قدرتی طور پر عورت کی اندام نہانی میں یہ خاصیت موجود ہے کہ وہ سپرم کو کچھ دن تک سٹور کر سکتی ہے۔ اس لیے زیادتی کے بعد عورت یا بچی کا میڈیکل اگر دو یا تین دن لیٹ بھی ہو جائے تو پھر بھی ڈی این اے سمپل مل سکتا ہے جس سے اصل مجرم تک پہنچا جا سکتا ہے۔ لیکن لڑکوں یا مردوں میں ایسا نہیں۔ اینس (دبر) میں سپرم کو محفوظ کرنے کی صلاحیت موجود نہیں ہے۔ اگر کسی لڑکے سے زیادتی ہو تو ڈی این اے سمپل لینے اور جرم کو ثابت کر دینے کے قابل ثبوت اکٹھا کرنے کے لیے بہت تھوڑا وقت ہوتا ہے۔ ایک پاخانہ جرم کے تمام ثبوت مٹا سکتا ہے۔ لڑکوں سے زیادتی کے کیسز میں بھی پولیس ڈاکٹ جاری کرنے اور میڈیکل لینے میں روایتی سستی کا مظاہرہ کرتی ہے۔ لڑکیوں کے برعکس لڑکوں کے کیسز میں میڈیکل میں دیر انتہائی مہلک ثابت ہوتی ہے اور کیس کے تمام ثبوت پہلے ہی مرحلے پر ضائع ہو جاتے ہیں۔ اس نازک ترین، اہم ترین مسئلے کی جانب نہ تو عوام الناس کی توجہ ہے، نہ پولیس کی اور نہ ہی ڈاکٹرز کی۔ ہمیں لڑکوں سے زیادتی کے کیسز کو لڑکیوں سے زیادتی کے کیسز سے بھی زیادہ ایمرجنسی میں ڈیل کرنا ہو گا ورنہ مجرم، مجرم نہیں رہے گا اور مظلوم، مظلوم نہیں۔ میں آپ سب کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ جب بھی کسی لڑکے سے زیادتی کا کیس سامنے آئے تو دو احتیاطیں ہمیشہ اختیار کریں۔ ایک تو کپڑے نہ بدلیں اور دوسرا پاخانہ اس وقت تک روک کر رکھیں (فوری طور پر ڈاکٹ حاصل کر کے ہسپتال پہنچیں اور طبی معائنہ اور سمپل دیں) جب تک کہ طبی ملاحظے کا عمل مکمل نہ ہو جائے۔ (جاری ہے)
اس سلسلے کی باقی اقساط:
بچوں سے زیادتی، صرف قصور ہی کیوں؟ (پہلی قسط)
بچوں سے زیادتی ! صرف قصور ہی کیوں؟ (دوسری قسط)
بچوں سے زیادتی، صرف قصور ہی کیوں؟ (قسط نمبر 3)