اس کو۔ماننے والے شیخ رشید جو کہ آج کل اسٹیبلشمنٹ کی تعریف و توصیف کرتے نظر آتے ہیں ایک زمانے میں فوج کو للکارتے ہوئے کہتے پائے جاتے کہ آپ سے اگر نواز شرہف لیول کا یہ بندہ ڈیل نہیں ہوتا تو بتا دیں۔ پھر وہ فوج کے نواز شریف کے خلاف کوئی ایکشن نہ لینے پر کہا کرتے کہ آپ نے جو ستو پی رکھا ہے آپ کی تباہی نواز شریف کے ذمہ سے ہوگی۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اس وقت کی اپوزیشن نے اسٹیبلشمنٹ کو بہت کچھ سوچنے اور کرنے پر ترغیب بھی دی۔
اب آج کے ماحول میں بھی وہی کچھ ہے۔ صرف کردار اپنی اطراف تبدیل کر چکے ہیں۔ اب نواز شریف نے مشین گن چلانے والے ہیں اور شیخ رشید اور ہمنوا طبی امداد پر معمور ہیں۔ اور دلچسپ بات یہ کہ وزیر اعظم عمران خان خود یہ بیان دے چکے ہیں کہ نواز شریف انکی حکومت اور فوج کے درمیان ہم آہنگی میں دراڑیں ڈالنا چاہتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ آیا سیاستدان اتنا اثر رکھتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کو اپنے دباو میں لے آئیں؟ اور اگر نہیں تو پھر وزیر اعظم کو یہ کیوں لگتا ہے کہ کوئی سیاستدان حکومت اور فوج کے درمیان دراڑیں ڈال سکتا ہے۔ اب حامد میر نے اپنے کالم میں لکھا ہے کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کے اہم قائدین مولانا فضل الرحمٰن کی اس رائے سے اتفاق کرنے لگے ہیں کہ بہت ملاقاتیں ہو چکیں، اب ہمیں ملاقاتیں چھوڑ کر حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرنا ہے اور کچھ سیاسی رازوں میں عوام کو شریک کر لینا چاہئے۔اس کا مطلب یہی ہوا کہ عوام ہی ہیں جو کہ طاقت کا اصل سرچشمہ ہیں۔
اب جبکہ شہباز شریف کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور مریم نواز نے اپنے چچا کی گرفتاری کے پیچھے وجہ انکے والد نواز شریف کے ساتھ شہباز شریف کی وفاداری کو قرار دیا ہے اور ایک طرح سے اس معاملے پر بھی عوام کی طرف رجوع کیا ہے اور ان فیصلوں کے بارے میں ایک سیاسی بیانیہ بنانے کی کوشش کی ہے۔
مریم نواز سمیت اس وقت غیر جمہوری قوتوں کو للکارنے والے تمام سیاستدانوں کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہئے کہ اب کی بار کافی عرصے کے بعد وہ اقتدار کے اصل مالکوں یعنی کے عوام سے رجوع کر رہے ہیں اور اب تک عوام نے انہیں خاص مایوس نہیں کیا۔ تاہم اگر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کے بعد پھر سے غیر جمہوری قوتوں کے کاسہ لیس بن کر اپنے اقتدار کو طول دینے کی کوشش کریں گے تو شاید پھر پاکستان میں جمہوریت کے احیا کی تمام امیدیں دم توڑ جائیں اور یہ کٹھن سفر مزید طویل ہوجائے۔ عوام کے نمائندے یاد رکھین کہ جب تک وہ عوام کے در سے ہی اقتدار کے لئے رجوع کریں تو انہیں چور دروازوں سے جا کر توہین آمیز مراحل سے گزرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے۔